Maktaba Wahhabi

577 - 668
پھر جب عیسائی دوستوں نے خیال کیا کہ مذہب سے بدظن کرنے والی اس آیت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی تو نئی انجیل میں ان مندرجہ بالا الفاظ کے بجائے ان کو یوں تبدیل کر دیا اور بات کو درست کر لیا۔ چنانچہ اب نئی انجیل میں ہے کہ اختیار ہے اس میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اس کا بیاہ ہونے دے۔ اب آپ ہی اندازہ کریں کہ وَے بیاہ کریں اور ہونے دیں میں کتنا فرق ہے۔ پھر جب ایک فقرہ کے بدلنے سے گندی اور ناپاک تعلیم صحیح ہو سکتی ہے تو ۳۷ آیات کی کمی بیشی سے نامعلوم کتنا فرق پیدا ہو گیا ہو گا؟ انجیل لکھی نہیں گئی: علاوہ ازیں رومن کیتھو لک کی انجیل جو انھوں نے ۱۹۵۰ء میں شائع کی اور یہ انجیل پنجاب ورنیکلر کیتھولک ٹرتھ سوسائٹی انارکلی لاہور سے مل سکتی ہے، اس انجیل کے دیباچے میں صاف لکھا ہوا موجود ہے: ’’علاوہ اس کے ہم کو معلوم ہے کہ سب کچھ جو مسیح نے کہا اور کیا وہ تمام لکھا نہیں گیا۔ اس نے (یعنی مسیح نے) خود کچھ نہ لکھا اور نہ رسولوں کو حکم دیا کہ انجیل لکھیں ، مگر یہ کہ اسے سنائیں ۔‘‘ پس جس کتاب کو خود صاحبِ کتاب بھی تحریر میں نہ لائے اور نہ اس کے حواری تو یہ بات صاف نکھر کر سامنے آ گئی کہ یہ انجیل ساری کی ساری بعد کی تصنیف ہے۔ صرف یہی ا نجیل نہیں ، بلکہ مسیح کے بعد ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی ا نجیل لکھی جاتی رہی اور تھوڑا عرصہ زمانے کے ساتھ چل کر پھر ختم ہو جاتی۔ پھر ایک انجیل لکھی جاتی، جیسا کہ پادری ڈبلیو بنجمن صاحب نے اپنی کتاب طریقِ انجیل و صحتِ انجیل میں ان کتابوں کی گنتی کی ہے اور وہ اپنی کتب میں لکھتے ہیں کہ اگر سب غیر مستند انجیلوں وغیرہ کی فہرست بنائی جائے تو اس میں کم از کم ستر کتابوں کے نام لکھے جائیں گے ۔ چونکہ فنِ تصنیفِ انجیل ایک مستقل کاروبار کی شکل اختیار کر گیا تھا اور ان کے لیے سوائے اس بات کہ اور کوئی چارہ کار نہ رہا کہ ان کی تمام تصنیف شدہ اناجیل میں سے کچھ اپنے لیے انتخاب کر لیں ۔ کیونکہ تصنیفِ انجیل کے سیلاب نے عیسائی دنیا کو بے حد پریشان کر رکھا تھا اور صرف اسی بات کو سامنے رکھ کر یوحنا کو اپنے مکاشفے کے اختتام پر لکھنا پڑا کہ میں ہر ایک آدمی کے آگے، جو اس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے،
Flag Counter