Maktaba Wahhabi

184 - 668
مذہب پر جو طعن کیا ہے، وہ سراسر غلط اور باطل ہے۔ اگر تو اسے صحیح سمجھتا ہے تو تیرے مسلمہ مذہب پر بھی اسی طرح کا طعن، بلکہ اس سے بھی سخت وارد ہوتا ہے، تیرے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ ہمارے جواب کو بھی اپنے جواب کی مثل سمجھ لو۔ پس یہ جواب سن کر اس کی زبان طعن سے بند ہو جاتی ہے۔ پنڈت بھکشو آریہ پر الزام قائم کرنے کی سند: جس طرح اہلِ اسلام نے اپنی الہامی کتاب کا اور عیسائیوں نے اپنی الہامی کتاب کا سلیس اردو زبان اور دیگر زبانوں میں ترجمہ شائع کیا ہے، اس طرح آریہ سماج نے اپنے چار ویدوں کا اردو زبان میں ترجمہ شائع نہیں کیا، پس ویدوں کی بنا پر ان پر الزام قائم نہیں ہو سکتا۔ ان کے ترجمہ شائع نہ کرنے کی وجہ آیندہ ذکر کی جائے گی، إن شاء اﷲ۔ چونکہ الزام مسلّمات خصم سے ہوتا ہے، لہٰذا وہ میدانِ مناظرہ میں ویدوں کے ماسوائے اپنی ایسی معتبر کتابوں کا انکار کر جاتے ہیں ، جن پر ان کے مذہب کا دار و مدار ہے۔ جب ان کا مخالف ان کی کتابوں سے وید منترکا ترجمہ پیش کرتا ہوا ان پر اعتراض قائم کرے، تو جواب سے عاجز آ کر فوراً انکار کر جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، تم سنسکرت زبان میں وید منتر پڑھ کر اگر اس کا ترجمہ کرو گے تو ہم تسلیم کرلیں گے۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مخالف وید اور اس زبان سے نا واقف ہے، اس لیے وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اپنے مذہب کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہوئے دوسروں پر زبان درازی کرتے ہیں ۔ یہ ان کی شکست کا زبردست ثبوت ہے، کیونکہ وہ اپنے مذہب پر سے اعتراض کو اٹھا کر اسے معقول ثابت نہیں کر سکتے۔ جواباً گزارش ہے کہ اگر یہ اصول صحیح ہوتا تو آریہ مذہب کے بانی سوامی دیانند جی اس کی مخالفت نہ کرتے۔ چونکہ سوامی جی عربیت سے جب ناواقف تھے، تو ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب میں قرآن مجید کے ترجمے کی بنا پر انھوں نے اس پر کیوں اعتراض وارد کیے، حالانکہ مذکورہ اصول کے بموجب ان کا حق نہ تھا، کیونکہ وہ عربی نہیں جانتے تھے۔ پس سماجی دوستوں کو چاہیے کہ ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو یا تو اس سے خارج کر دیں یا اپنے اصول کا بطلان اور اس کا غلط ہونا تسلیم کر لیں ۔[1] ہر چند یہ اصول سراسر غلط اور باطل ہے۔ پس جس طرح سوامی جی نے عربیت کی لاعلمی کے
Flag Counter