Maktaba Wahhabi

407 - 668
سے نکال دی گئی ہیں ۔ لہٰذا اس کے محرف و مبدل ہونے کی وجہ سے اس کا بھی اعتبار نہ رہا۔ ہم پادری صاحب سے پوچھتے ہیں کہ آپ دوسرے فرقے کی انجیلوں کو جعلی کہہ دیتے ہیں ، لیکن آپ کی انجیل کے اصلی ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ جن لوگوں نے آپ کے مقابلے پر اور انجیلیں بنا رکھی تھیں ، وہ تو یقینا آپ کی انجیل کو جعلی جانتے ہوں گے، اس لیے ان کو الگ انجیلیں بنانے کی ضرورت پڑی۔ سیرت: پادری صاحب نے جعلی قصے کی بنا پر دو اعتراض کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھوٹ جان کر مدینے سے نکال دینا چاہتے تھے، جیسا کہ قصے میں ذکر ہے۔ بصیرت: جناب! یہودی بھی آپ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے۔ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کذاب جانتے ہیں ۔ جس طرح آپ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں دل آزار اور بد زبانی اور سخت ترین الفاظ بولتے ہیں ، اسی طرح وہ بے ایمان حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ کلام کرنے سے باز نہیں آتے۔ قرآنِ کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برحق رسول، صاحبِ کتاب ومعجزہ ثابت کرتا ہے اور یہود کے تمام الزامات سے ان کو پاک بیان کر کے عیسائیوں کو اپنا ممنون ٹھہراتا ہے۔ پس ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے اور بجائے سخت کلامی اور بد زبانی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنی فرض ہے، اس وجہ سے کہ موجودہ انجیل تو سچ مچ حضرت عیسیٰ کی صداقت یہود کو دکھا کر ان کی تسلی نہیں کر سکتی۔ اس سے یہود تو حضرت عیسیٰ کو کاذب ثابت کر سکتے ہیں ۔ تورات میں سچے نبی کا معیار ہے: تو جان رکھ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور جو اس نے کہا واقع نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی، بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے۔ تو اس سے مت ڈر۔ (استثنا باب ۱۸ درس ۲۲) یعنی نبی کی پیش گوئی اگر جھوٹی نکلے تو وہ اس کی خود ساختہ بات ہے۔ وہ خدا کا الہام نہیں ہے، یہ اس کے کاذب ہونے کی علامت ہے۔ اس معیار کی بنا پر حضرت مسیح کی اکثر انجیلی پیش گوئیاں پوری نہیں ہوئیں ، لہٰذا مسیح سچا نہیں ہے۔ نمونے کے طور پر صرف ایک پیش گوئی پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ جب ابن آدم نئی پیدایش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا،
Flag Counter