Maktaba Wahhabi

635 - 668
زندہ ہیں ، ٹھیک اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ۔ ﴿اَلْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ سے پہلا جملہ جو بالن ناصبہ سے شروع ہوتا ہے وہ معطوف علیہ ہے اور دوسرا جملہ ﴿اَلْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ معطوف توعیسیٰ علیہ السلام بلحاظ زندہ ہونے کے فرشتوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں ۔ چھٹی دلیل: ﴿وَاِِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ﴾ [الزخرف: ۶۱] اس آیت سے پیشتر عیسیٰ علیہ السلام کے نام کے ساتھ اس کا ذکر وابستہ ہے۔ اس کے بعد فرمایا: تحقیق وہ عیسیٰ علیہ السلام علامت ہے قیامت کی۔ ﴿فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَا﴾ اے انسان! مت اس میں شک کر۔ قیامت کی علامتوں میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک علامت ہے۔ مرزا صاحب نے براہینِ احمدیہ کے چوتھے حصے میں آیت لکھی ہے : آیت نمبر۱: ﴿ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ: ۳۳] عیسیٰ علیہ السلام جب دنیا میں دوبارہ نازل ہوں گے تواسلام شہرہ آفاق میں پھیل جائے گا۔ مرزا جی نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں نازل ہونا ذکر کیا ہے۔ آیت نمبر ۲: ﴿عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَاموَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا﴾ [بني إسرائیل: ۸] اس آیت میں بھی مرزا جی نے عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول کااستدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے براہینِ احمدیہ میں عام مسلمانوں کا ذکر کیا تھا۔ حالانکہ یہ صریح کذب ہے۔ مرزا جی نے تو آیت سے استدلال کرتے ہوئے اس کو مدلل بنایا، مدلل بنانے کی صورت میں رسمی عقیدہ نہ رہا۔ اسی براہین و دیگر کتب وغیرہ میں ان کوالہام ہوتا ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ * عَلَّمَ الْقُرْاٰن﴾ [الرحمٰن: ۱، ۲] ’’مجھے خدا تعالیٰ رحمن نے قرآن سکھایا۔‘‘ یہ الہام بھی براہینِ احمدیہ میں ہے، پس قرآن سیکھنے کے باوجود بھی حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام و نزول کے قائل رہے، اگر قرآن میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر ہوتا تو ان کو معلوم ہو جاتا۔ قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام قرآن مجید کی رو سے تو نہیں مرے، اگر مارا ہے تو اپنے خود ساختہ الہام سے مارا ہے۔
Flag Counter