Maktaba Wahhabi

538 - 668
اب آپ ان دونوں عبارتوں کو سامنے رکھ کر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتاب حضرت موسیٰ کی تصنیف نہیں ہے، بلکہ یہ کسی بعد کے شخص کی لکھی ہوئی کتاب ہے، جو بصیغہ غائب حضرت موسیٰ اور خداوند سے خبر دے رہا ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص خود اپنی زندگی کے واقعات کو اس طرح قلم بند نہیں کرتا جس طرح ماضی کے صیغوں کے ساتھ ان کتابوں میں تاریخی واقعات قلم بند کیے گئے ہیں ۔ غیر ذمہ دارانہ واقعات: یہاں ایک بات ہم ضرور کریں گے اور وہ یہ کہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جو اپنے سر میں ذرا بھی دماغ رکھتا ہے، ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد ضرور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ کتابیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں ، ان کتابوں کا مصنف ہر گز موسیٰ نبی نہیں ، بلکہ بہت عرصہ بعد کسی آدمی نے سنے سنائے واقعات کو لکھ دیا ہے اور بعد میں ان ہی غیر ذمہ دار واقعات کو تورات کا نام دے کر عوام الناس میں مشہور کر دیا کہ یہ موسیٰ کی کتابیں ہیں ۔ در اصل ہم یہاں ہر کتاب میں سے صرف ایک ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں ، ورنہ اگر تورات کے سارے واقعات جو تاریخی لحاظ سے بھی بہت گرے ہوئے ہیں ، کو جمع کیا جائے تو ان من گھڑت واقعات کے لیے تو ایک بہت بڑا دفتر درکار ہے، لیکن عقل و فہم رکھنے والے انسان دیگ میں سے صرف ایک دانہ ہی دیکھا کرتے ہیں اور تھوڑی سی بات سے اصل معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ جو آج تک چلا آتا ہے: پھر اس کے بعد حضرت موسیٰ کی چوتھی کتاب گنتی ہے، جس کے باب (۳۲) آیت (۴۱) میں لکھا ہوا ہے کہ منسی کے بیٹھے یائیر نے اس نواحی کی بستیوں کو جا کر لے لیا اور ان کا نام حووت یائیر رکھا۔ پھر یہ واقعہ استثنا (باب ۳، آیت ۱۴) میں بھی درج ہے: چنانچہ لکھا: ’’اور منسی کے بیٹے یائیر نے جسوریوں اور معکایتوں کی سرحد تک ارجوب کے سارے ملک کو لے لیا اور اپنے نام پر بسن کے شہروں کو حووت یائیر کا نام دیا۔جو آج تک چلا آتا ہے۔‘‘ حالانکہ یائیر کا واقعہ حضرت موسیٰ کے بہت عرصہ بعد کا ہے اور خاص کر یہ فقرہ ’’جو آج تک چلا آتا ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ غور ہے، کیونکہ یہ لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز یا کوئی نام کتاب لکھنے والے کے بہت عرصہ پہلے موجود ہو، جیسے
Flag Counter