Maktaba Wahhabi

247 - 668
مالِ غنیمت کا بیان سیرت: پھر مالِ غنیمت کا حکم دیا، جیسا کہ دنیا کے بادشاہ کرتے ہیں اور آپ بھی اس میں حصے دار تھے۔ دیکھو سورۃ الأنفال کی پہلی آیت: مالِ غنیمت اللہ کا ہے اور رسول کا وغیرہ۔ یہ باتیں دنیاوی حرص کی صریح علامتیں ہیں ۔ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے دوسروں کے مال اور جان کا نقصان کرنا اور اسے اپنے تصرف میں لانا۔ (ص:۱۹) بصیرت: غنیمت کے مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے حصے دار تھے کہ صحابہ کے ہمراہ جنگ میں جایا کرتے تھے اور اس کا سارا انتظام بھی کیا کرتے تھے۔ حریص وہ شخص ہوتا ہے جو کسی قسم کی مشقت اٹھائے بغیر ناجائز طریقے پر کسی کا مال اپنے تصرف میں لائے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم مال کا اپنے گھر میں ذخیرہ نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو غربا اور مساکین کے درمیان بانٹ دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کرنے میں یہ ایک اعلی ترین خوبی ہے کہ آپ مفسد اور ظالموں سے مقابلہ کر کے غریبوں کی جان کی حفاظت بھی کرتے تھے اور مالِ غنیمت سے ان کی پرورش بھی کرتے اور ان کی یہاں تک خیر خواہی فرماتے کہ جب کوئی غریب مومن قرض کی حالت میں فوت ہو جاتا تو اس کا قرض بھی ادا کر دیتے اور اگر کوئی مال چھوڑ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے وارثوں کو حکم کرتے کہ اسے قبضے میں کر لیں ۔[1] (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ) ناظرین! کیا یہ اوصافِ حمیدہ دنیاوی حریص کے ہیں ؟ ہر گز نہیں ، بلکہ اعلیٰ درجے کے خیر خواہ، غریب پرور، صابر اور متوکل کے ہیں ۔ پادری صاحب نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرتے ہوئے اپنی الہامی کتاب کو بھی نظر انداز کر دیا۔ جس میں صاف ذکر ہے کہ غنیمت حاصل کرنے پر خدا نے امداد
Flag Counter