Maktaba Wahhabi

116 - 668
اور قرآن و حدیث کا مکذب، رسول کا مکذب ہے، پس ایسا شخص دائرہء اسلام سے خارج ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے سبب سے ایسے پاک و صاف ہو گئے تھے کہ ان میں ذرہ بھر بھی کوئی عیب نہ رہا، بلکہ ایمان اور یقین میں سب سے زیادہ سبقت لے گئے۔ سید المرسلین کے تزکیے کا بیان انیسویں آیت: ﴿یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ [البقرۃ : ۱۵۱، الجمعۃ : ۲] ’’اے لوگو!ہمارے رسول تم پر ہماری آیات پڑھتے ہیں اور تمھیں پاک صاف کرتے ہیں اور تمھیں کتاب و حکمت، یعنی قرآن و حدیث سکھاتے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں ﴿یُزَکِّیْکُمْ﴾ جو مضارع کا صیغہ ہے، کا مصدر تزکیہ ہے، جس کے معنی پاک صاف کرنے کے ہیں ۔ ابنِ کثیر میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: ﴿یُزَکِّیْکُمْ﴾ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو برے اخلاق اور جاہلیت کی عادات اور شرک وغیرہ سے پاک و صاف کرتے ہیں اور ان کے نفوس کو گناہوں کی میل کچیل سے ستھرا کرتے ہوئے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرتے ہیں ۔[1] قرآن مجید میں ﴿یُزَکِّیْکُمْ﴾ سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نبی کی شان میں ذکر نہیں کیا گیا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تعلیم کے ساتھ بذات خود ہر عیب سے پاک و منزہ ہونے کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تزکیے سے مومنوں کو بھی حصہ ملتا ہے۔ بے شک حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں ﴿غُلَامًا زَکِیًّا﴾ سورت مریم میں آیا ہے، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پاک لڑکے ہیں ۔ ’’زکی‘‘ اس کو کہتے ہیں جو خود منزہ اور عیب سے پاک ہو، بخلاف مزکی کے جو ﴿یُزَکِّیْ﴾ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، ا س کے معنی ہیں دوسروں کو بھی گناہوں کی میل سے مبرا کرنے والا،جو اپنے تزکیے سے کسی دوسرے کو بھی پاک و صاف کر دے۔ وہ ’’زکی‘‘ سے بدرجہا افضل و اشرف ہوتا ہے۔ مزکی میں بہ نسبت ’’زکی‘‘ کے بہت زیادہ تزکیہ ہوتا ہے، تب ہی تو اس سے دوسرے لوگ حصہ یاب ہوتے ہیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار ’’مزکی‘‘ ہونے کے تمام سے ارفع و فائق تر ہیں ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تھے، لہٰذا خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے بجائے ایسے وصف سے پکارتا ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف و تکریم ظاہر ہو۔
Flag Counter