Maktaba Wahhabi

171 - 668
چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام خلقت سے افضل و اکرم ہیں ۔ پس جب حضرت ابراہیم علیہ السلام’’ خیر البریّہ‘‘ ٹھہرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ خیر البریّہ‘‘ ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے؟ مندرجہ ذیل حدیثوں کی بنا پر بھی فضائل نبوی پر شبہہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتواں شبہہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی بندے کو یہ کہنا جائز نہیں کہ میں حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں ۔‘‘ (بخاري و مسلم) [1] بخاری کی روایت ہے کہ جو شخص یہ کہے: (( أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذَبَ)) ( مشکاۃ، باب بدء الخلق) ’’ یعنی میں یونس بن متی سے اچھا ہوں تو اس نے جھوٹ بولا۔‘‘ یہ دونوں حدیثیں اپنے عموم کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب کو شامل ہیں ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عوام کی طرح اپنے آپ کو حضرت یونس علیہ السلام سے اچھا کہنے کی جرات نہیں کر سکتے تو لامحالہ یونس علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ٹھہرے۔ ازالہ: اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص، نبی ہو یا غیر نبی، کسی نبی صادق کے مقابلے میں ’’أنا خیر‘‘ یعنی میں اس سے اچھا ہوں ، کہے تو اس سے صادق نبی کی توہین لازم آتی ہے، جو کفر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت یونس علیہ السلام کے مقابلے میں ’’أنا خیر ‘‘ کہنے سے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے افضل و برتر نہیں ہیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیا و ملائکہ علیہم السلام سے جب افضل ثابت ہو چکے، جیسا کہ دلائلِ قاطعہ سے ثابت کیا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لامحالہ حضرت یونس علیہ السلام سے بھی اعلیٰ اور برتر ثابت ہوئے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے مقابلے میں ’’أنا خیر‘‘ کہنا صریح کفر ہے۔ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے مقابلے میں جو پہلے نبی تھے، شیطان نے ’’أنا خیر‘‘ کہنے کی جرات کی، یعنی میں اس سے بہتر ہوں ۔ (سورۃ الأعراف:۱۲) فرعون نے بھی تکبر اور فخر سے
Flag Counter