Maktaba Wahhabi

391 - 668
اعتقاد سیرت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کو شک کیوں نہ ہو، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تک کو شک ہوا تھا۔ (صحیح مسلم، باب زیادۃ طمانیۃ القلب)[1] بصیرت: سابقہ تجربے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ پنڈت جی خیانت سے کام لیں گے۔ خیانت اور کذب بیانی سے ان کو نیوگ سے کم محبت نہیں ہے۔ صدق و دیانت سے ان کو ایسی عداوت ہے جیسا کہ گائے کے گوشت سے ان کو سخت نفرت ہے۔ شاید کوئی شاذ و نادر ہی واقعہ رہا ہو گا جو ان کی خیانت کے زہر سے آلودہ نہ ہوا ہو۔ ان کی پیش کردہ حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کے ساتھ زیادہ حق دار ہیں ، جس وقت انھوں نے عرض کی: اے میرے رب مجھے آنکھوں سے دکھا تو کس طرح مردے کو زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس پر ایمان نہیں لایا؟ انھوں نے عرض کی: کیوں نہیں ، ایمان تو لایا ہوں ، لیکن میرا دل بہ چشم خود دیکھنے سے زیادہ علمِ اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے چار جانوروں کو ذبح کرایا، پھر ان کے سامنے زندہ کیا۔ (سورۃ البقرۃ) یہ تو ہے واقعہ۔ پس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایمان لائے اور ایمان کے معنی یقین کے ہوتے ہیں ، جس سے شک دور ہو جاتا ہے، چنانچہ انھوں نے زیادہ علم اور اطمینان کا سوال کیا۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام شک کرتے تو ہم ان سے زیادہ شک کرنے کے حق دار تھے۔ چونکہ انھوں نے یقین کیا، لہٰذا ہم بھی ان کی اتباع کی بنا پر یقین کے حقدار ہیں ۔ یہ حدیث کا مفہوم ہے۔ پنڈت جی نے اعتراض پیدا کرنے کے لیے آیت کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو مغالطہ ڈالنے کی ناپاک کوشش کی۔ اگر یہ مندرجہ ذیل منتر کو پہلے مطالعہ کر لیتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ضعفِ حافظہ کا
Flag Counter