Maktaba Wahhabi

202 - 668
بصیرت: بے شک یہ باطل قول اس تفسیر میں بلاسند بعض مفسرین کی طرف نسبت کیا گیا ہے اور ان کے تمسکات بھی وہاں مذکور ہیں ۔ ان کی تردید درج ذیل ہے: پہلی آیت جس میں ’’ضال‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس کا مفصل جواب قریب ہی گزر چکا ہے۔ دوسری آیت: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اسی طرح ہم نے آپ کی طرف ایسی وحی کی جو روح ہے، جس کے ایمان لانے سے دلوں میں ایمانی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اس وحی سے پہلے آپ کتاب اور ایمان کو نہیں جانتے تھے۔‘‘ چونکہ اس آیت میں اس ایمان کی نفی کا ذکر ہے جس کا مضمون بالتفصیل قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ کافر تو اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی مذہب کی تبلیغ سن کر اس سے آشنا ہو کر اس کا انکار کر دے، بخلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پہلے جن مسائل کا علم نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ معذور ہونے کے اس سے بے خبر تھے۔ کفر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس صورت میں منسوب ہو سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تبلیغ کے بعد ایمان بالوحی کا انکار کر دیتے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا وقوع میں نہیں آیا۔ پس آیتِ مذکورہ کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کفر کو نسبت کرنا بالکل غلط اور باطل ہے۔ یاد رہے کہ ہر سچے نبی میں عموماً اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں خصوصاً اتنا مجمل ایمان فطری طور پر ضرور تھا کہ جس سے وہ خدا کی معرفت میں کامل اور زہد اور تقویٰ اور عبادت میں ہر وقت مشغول رہتے تھے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور کلام میں پاکیزہ خصائل اور مقدس اخلاق اور اعلیٰ تہذیب اور پاکیزہ افعال سورج کی طرح نظر آتے تھے۔ لہٰذا وہ وحی سے پہلے بھی اس مجمل ایمان کی بنا پر اول درجے کے معصوم تھے۔ بعض مفسرین کے خیال کے مطابق ایمان کے معنی نماز ہیں ۔ جس کی دلیل قرآن و حدیث میں مذکور ہے، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اے لوگو ’’اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان، یعنی نماز کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی سے پہلے قرآن اور نماز کو نہیں جانتے تھے۔ یہ معنی بہت صحیح ہیں جن پر کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا۔ ہر چند وحی سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کفر کی نسبت محال ہے۔
Flag Counter