Maktaba Wahhabi

520 - 668
مندرجہ ذیل آیات بھی ہمارے دوست دورانِ گفتگو پیش کرتے ہیں کہ: اگر اہلِ کتاب تورات اور انجیل اور جو چیز ان کے رب کی طرف سے ان کی طرف اتاری گئی ہے قائم کرتے تو البتہ ان پر ہر طرف سے رزق کی فراوانی ہوتی۔ (سورۃ المائدۃ، رکوع ۹) [1] گویا قرآن کے بیان کے مطابق نزولِ قرآن سے ہی اہلِ کتاب نے کتابوں کو قائم نہیں رہنے دیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ آپ اہلِ کتاب کو کہہ دیں کہ تم ہر گز کسی چیز پر قائم نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف اتارا گیا، قائم کرو۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے وقت کے اہلِ کتاب نے اپنی اپنی کتابوں کو قائم نہیں رہنے دیا تھا۔ صرف و نحو کے اصول کے مطابق پہلی آیت میں ’’أقاموا‘‘ ماضی کا صیغہ ہے، جس کا ترجمہ ہے: قائم کرتے اور دوسری آیت میں مضارع ’’یقیموا‘‘ ہے، جس کا ترجمہ ہے: قائم کرو گے۔ قائم اور ضائع کی مثال: یہ دونوں مصدر اقامت سے مشتق ہیں ، جس کا ترجمہ ہے کسی چیز کو سیدھا اور درست اور اپنی اصلی حالت پر مضبوط اور قائم رکھنا۔ یہ لفظ قرآن مجید میں ان لوگوں کے حق میں بھی بولا گیا ہے جو اپنی نمازوں کو اپنے اوقات میں ٹھیک اور درست اور ایک ایک ارکانِ نماز کو پورا کرتے ہیں ۔ یعنی فرمایا: ﴿اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ﴾ (سورۃ الحج، رکوع ۶) [2] جو لوگ اپنی نمازوں کو صحیح وقت میں نہیں پڑھتے اور نماز کے اصل ٹائم کو ضائع کر کے جلدی جلدی رکعات کی تعداد پوری کرتے ہیں اور کسی ایک رکن کو بھی صحیح طریق پر ادا نہیں کرتے، ان کے لیے قرآن کا ارشادہے: ﴿اَضَاعُوْا الصَّلٰوۃَ﴾ (مریم، رکوع ۴) [3] یعنی ایسے نمازیوں نے اپنی نمازوں کو ضائع و برباد کر دیا۔ پس لفظِ اقامت کے بالمقابل اضاعت کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو خراب اور برباد کر دینا۔ آیت زیرِ بحث میں بھی جب تورات اور انجیل کی اقامت کی نفی ہے، یعنی ان کے ماننے والوں ہی نے ان کو اصل حالت پر قائم نہیں رہنے دیا تو لفظِ اضاعت اس کے نقیض کا اثبات ہوا اور نتیجہ صاف کہ
Flag Counter