Maktaba Wahhabi

364 - 668
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ز ینب رضی اللہ عنہا سے نکاح قرآن میں ارشادِ خداوندی ہے: اے پیغمبر! اس بات کو یاد کرو کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو، یعنی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سمجھا رہے تھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا، کہ اسلام کی توفیق دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر احسان کرتے رہے کہ غلامی سے اسے آزاد کیا، کہ اپنی بی بی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اسے طلاق مت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اپنے دل میں چھپاتے تھے جس کو آخر کار اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں ڈرتے تھے اور خدا اس کا زیادہ حق دار ہے، کہ تم اس سے ڈرو۔ پھر جب زید رضی اللہ عنہ اس عورت سے بے تعلقی کر چکا، یعنی طلاق دے چکا اور عورت کی عدت پوری ہو گئی، تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس عورت کا نکاح کر دیا، تا کہ مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بی بیوں سے بے تعلق ہو جائیں تو مسلمانوں کے لیے ان عورتوں سے نکاح کرنے میں کسی طرح کی خفگی نہ رہے اور خدا کا حکم ہو کر ہی رہے گا۔ (سورۃ الأحزاب ع ۲) ان آیات سے حسبِ ذیل باتوں کا ثبوت پہنچتا ہے: اول: یہ کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی تیز کلامی کی شکایت کی اور طلاق دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا، جب ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وعظ کیا اور طلاق سے منع بھی کیا۔ دوم: یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کو لوگوں کے طعن سے ڈرتے ہوئے دل میں پوشیدہ رکھتے تھے، لیکن خدا اس کو ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ آیت میں اس بات کا ذکر نہیں کہ وہ کیا تھی؟ لیکن زید رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے اور لوگوں کے طعن سے ڈرنے کے قرینے سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے وحی کی کہ زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نکاح میں لائیں ، جیسا کہ تفاسیرِ معتبرہ میں مذکور ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر میں اس آیت کے ما تحت بحوالہ ابن ابی حاتم اس کی اسناد کے ساتھ حسن بصری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کو لوگوں کے طعن سے ڈرتے ہوئے
Flag Counter