Maktaba Wahhabi

512 - 668
کہ اگر کوئی شخص اس کتاب کی عبارت کا مطلب غلط بیان کرے گا تو اس کتاب کے الفاظ ہی اس کی تردید کریں گے۔ بخلاف اس کے کہ اگر تحریف لفظی ہو چکی ہو تو پھر اصل بات کا سراغ لگانا ہی محال ہے۔ پہلی آیت: اب ہم اس بات پر غور کریں گے کہ آیا قرآن مجید بائبل کو محفوظ مانتا ہے یا محرف؟ مندرجہ ذیل آیات سے آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے بائبل کے محرف ہو جانے کا ذکر کیا ہے: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم اس بات کا طمع کرتے ہو کہ یہودی تمھارے لیے ایمان لائیں ، حالانکہ ان میں ایک فرقہ ایسا تھا کہ وہ اللہ کے کلام کو سننے کے بعد اور پھر سمجھنے کے بعد اس کو بدل ڈالتے تھے۔ (سورۂ بقرہ، رکوع ۹) [1] یہ آیات بآوازِ بلند شہادت دے رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پیشتریہودیوں نے ان کتابوں کو، جو کلام اللہ تھیں ، محرف و مبدل کر ڈالا تھا اور پھر آپ کے وقت کے یہودی بھی اللہ کی کلام کو تحریف کرنے میں اپنے اسلاف کے مقلد تھے۔ اسی لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان کے ایمان لانے کی توقع نہ رکھیں ۔ اب چونکہ اس آیت میں تحریف مطلق کا ذکر ہے، لہٰذا یہ ہر قسم کی تحریف کو شامل ہے، چاہے تحریف لفظی ہو یا معنوی۔ تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ علماے یہود تورات کو محرف و مبدل کر ڈالتے تھے۔[2] دوسری آیت: نزولِ قرآن کے وقت کے یہودی بھی کلام اللہ کو محرف کرنے میں چونکہ اپنے اسلاف کے مقلد تھے، لہٰذا قرآن انہی کو خطاب کرتا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ۔ (سورۂ بقرۃ، رکوع ۵) [3] اس آیت میں صاف ذکر ہے کہ یہودی سچائی کے ساتھ جھوٹ ملا کر پیش کرتے تھے اور اپنی طرف سے کچھ آیتیں بنا کر ان کو تورات میں اس طرح خلط ملط کر دیتے تھے کہ اصل کلامِ الٰہی اور اس عبارت میں جو وہ خود بنا کر لکھتے تھے، امتیاز کرنا مشکل تھا۔ تلبس الحق بالباطل کی انواع میں سے یہ بھی
Flag Counter