Maktaba Wahhabi

643 - 668
الجواب بعون اللّٰہ الوہاب: پہلا اور دوسرا سوال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدایش کے اور یومِ وفات کے متعلق ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدایش میں اگرچہ کچھ اختلاف ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے روز دو شنبہ پر جمہور کا اتفاق ہے اور دو شنبہ (سوموار) کا دن نو تاریخ کے سوا کسی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نیز اس پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سکوتی اجماع ہے، کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سوموار کے دن ہوئی، جس کی مخالفت کسی صحابی سے باسناد صحیح منقول نہیں ۔ پس اس پر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سکوتی اجماع ہوا۔ جواب نمبر۳: 1۔ بلاشبہہ جلوس و عید میلاد بدترین بدعت اور مردود عمل ہیں ، کیوں کہ اگر اس میں ثواب ہوتا (جیسا کہ آپ کا بدترین خیال ہے) تو صحابہ عظام، تابعین و تبع تابعین کرام خصوصاً ائمہ اربعہ اس ثواب سے کیوں محروم رہے؟ کیا آپ ہی کو اس بدترین بدعت سے ثواب حاصل کرنا ضروری ہے؟ 2۔کھڑے ہو کر اذان کہنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہے اور مسجد میں کھڑے ہو کر اذان پڑھنا بدعت نہیں ، کیوں کہ سوائے جمعہ کی پہلی اذان کے کسی اذان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسجد میں نہ کہی جائے۔ جمعہ کی پہلی اذان مسجد میں نہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اذان کی آواز مسجد سے دور عوام تک پہنچ جائے۔ دوسری اذان کے وقت چونکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں آ جاتے تھے، اس لیے دوسری اذان مسجد ہی میں کہی جاتی تھی۔ جمعے کی پہلی اذان مسجد میں نہ کہنے کی جو علت قرار دی گئی ہے وہ چونکہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پوری ہو جاتی ہے، لہٰذا مسجد میں کھڑے ہو کر (سپیکر میں ) اذان کہنا بدعت نہ ہوئی۔ یہ آپ نے کس حدیث سے اخذ کیا ہے کہ مسجد میں کھڑے ہو کر اذان کہنا بدعت ہے؟ 3۔لاؤڈ سپیکر میں نماز پڑھانا محض مباح ہے، اس میں ثواب نہیں سمجھا جاتا۔ بدعت اس وقت ہوگی جبکہ لاؤڈ سپیکر میں نماز پڑھانا ثواب تصور کیا جائے اور اس کے بغیر نماز پڑھانا ثواب سے محرومی تسلیم کی جائے۔ اس میں نماز کے پڑھانے یا نہ پڑھانے میں کوئی دینی اہمیت نہیں ، اسے تو محض
Flag Counter