Maktaba Wahhabi

493 - 668
یہ چاروں حافظ انصار میں سے ہیں ، اگرچہ ان کے جمع کردہ نسخوں میں بعض تفسیری الفاظ اور تراجم شامل تھے۔ تاہم قرآن بھی سارا ہی ان میں مجتمع تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع ہو گیا تھا: علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سفر میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا۔ صرف اس خطرے کے پیش نظر کہ کوئی دشمن ان کے ہاتھوں سے چھین کر بے حرمتی نہ کرے۔ (موطا امام مالک کتاب الجہاد) [1] اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لکھا ہوا قرآن ہی کوئی نہ تھا اور اگر قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس موجود نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا حکم ہی کیوں کرتے، حالانکہ حفاظ کے دلوں سے نکال کر تو دشمن کی بے حرمتی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھانے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ ہمارے پاس لکھا ہوا قرآن موجو دہے۔ (مشکاۃ باب وفاۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم) [2] اس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم خاموش رہے۔ پھر تحریر کی اس واسطے بھی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہوا قرآن موجود تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمے جھوٹ: ابن سیرین اور عکرمہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میں دیکھتا ہوں لوگ کتاب اللہ میں زیادتیاں کرتے ہیں اور میں نے نیت اور ارادہ کیا ہے کہ جمعے کی نماز کے سوا چادر نہیں اُوڑھوں گا، جب تک میں قرآن کو جمع نہ کر لوں تو جواب میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے بہت اچھا سوچا ہے۔ (اتقان سیوطی صفحہ ۱۹) پھر عکرمہ اور ابن سیرین کے نیچے کا اسناد ایسا مجہول الحال ہے کہ معلوم نہیں کیا ہے؟ حالانکہ یہ چوتھے اور پانچویں طبقے کی کتب کی روایات ہیں ، جن کا قرآن کی حفاظت ایسے معرکۃ الآراء مسئلے سے
Flag Counter