Maktaba Wahhabi

74 - 668
مطابق ہیں ، ان میں ذکر ہے کہ قیامت کے دن دیوانہ اور کافر کا نابالغ لڑکا اور جس کو اسلام کی تبلیغ نہیں پہنچی وغیرہ، یہ خداکے سامنے عذر کریں گے کہ ہمیں اسلام کی تبلیغ نہیں پہنچی، لہٰذا ہمیں معذور سمجھا جائے۔ پس خدا تعالیٰ اپنے عدل کو بحال رکھنے کے لیے ان کا امتحان لیتا ہوا حکم کرے گا کہ تم آگ میں چھلانگ لگاؤ، پس ان میں سے جو لوگ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیں گے، ان کو نجات ہو گی اور جو لوگ اپنے آپ کو آگ میں ڈالنے سے انکار کریں گے، وہ عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اس امتحان سے ظاہر ہو جائے گا کہ جنھوں نے حکمِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیا، اگر ان کو دنیا میں تبلیغ پہنچ جاتی تو قبول کر لیتے اور جنھوں نے انکار کیا، وہ دنیا میں بھی انکار کرتے، لیکن بحکم آیت مذکور کے معذور ہونے کے اعتبار سے انجام کار ان کو بھی رہا ہی کیا جائے گا۔ پس اس اصول کی بنا پر عالمگیر مذہب کی جامع مانع تعریف یہ ہو گی کہ وہ انسان کی ہر حالت میں حسبِ طاقت اپنے قوانین کے اعتبار سے راہنمائی کرے۔ نتیجہ: اسلام عالمگیر مذہب ہے۔ اس تعریف میں پادری صاحب کے سب اعتراضات کا جواب تو آ گیا، لیکن ہم ان کو سمجھانے کے لیے انجیل کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ، تاکہ ان کو ایسے فضول شبہات کی جرات پیدا نہ ہو۔ چونکہ زکات اور حج غریب سے ساقط ہیں ، اس لیے کہ اس کی طاقت سے بالا تر ہیں ، جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک مالدار آدمی کو فرمایا کہ تو اگر کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے، تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آ میرے پیچھے ہو لے۔ مگر وہ جوان یہ بات سن کر غمگین ہو کر چلا گیا، کیونکہ وہ بڑا مالدار تھا۔ (متی، باب ۱۹، درس ۲۱ تا ۲۲) حضرت مسیح علیہ السلام نے مالدار کو غریب پر خرچ کرنے کا حکم فرمایا اور پادری صاحب کے خیال کے مطابق یہ ڈبل غلطی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک عالمگیر وہ مذہب ہے جس پر ہر انسان ہر حالت میں عمل کر سکے۔ لیکن غریب آدمی کو جو خیرات لینے کا مستحق ہے وہ خیرات کیسے کرسکتا ہے؟ پس ظاہر ہوا کہ غنی کا حکم فقیر سے مختلف ہے۔ اگر تمام لوگ ہی غنی ہو جاتے تو خیرات کا اجر باطل ہو جاتا۔ اسی طرح اگر سب لوگ غریب و مفلس ہوتے تو خیرات کا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ اگر پادری صاحب اپنے اعتقاد کے
Flag Counter