Maktaba Wahhabi

127 - 668
علاوہ ازیں تارک کے لیے سخت وعید بھی فرمائی، تاکہ مومن ترک بھی نہ کریں اور ڈر کر ہمیشہ یہ وظیفہ جاری رکھیں ۔ فرمایا: ’’وہ بخیل ہے جس کے سامنے میں ذکر کیاجاؤں تو وہ مجھ پر سلام نہ بھیجے۔‘‘ (ترمذي صحیح حسن غریب) [1] یہ لکھنے سے ہم نہیں رک سکتے کہ تمام اسلامی علما اور طلبا کی نسبت اہل السنت والجماعت اہلحدیث کے علما اور طلبا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر درود پہنچاتے ہیں اور اس کا وظیفہ بھی کثرت سے کرتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں ۔ ان کے مدارس میں بہ نسبت دیگر فنون کے علمِ حدیث پر بہت زور دیا جاتا ہے، یعنی اس کو بکثرت پڑھا جاتا ہے۔ کتبِ احادیث کا دورہ اور سبق پڑھنے کے وقت بکثرت سلام اور صلاۃ کا آوازہ بلند ہوتا ہے۔ ہر حدیث کے شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام مع درود کے لکھا ہوا ہے، مثلاً: ’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘، ’’سمعت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘بعض حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بہ نسبت ایک بار کے بہت دفعہ مذکور ہوتا ہے اور مدارس میں طلبا کی تعداد بکثرت ہوتی ہے اور نوبت بہ نوبت سبقِ حدیث پڑھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جب استاد اور شاگرد کے درمیان محققانہ طور پر مناظرہ شروع ہوتا ہے تو ان کی زبان سے اثنائے گفتگو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مع درود کے جاری ہوتا ہے۔ یہ اس گروہ کی خصوصیت ہے۔ کثرتِ صلاۃ و سلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجنے سے دوسرے جملہ گروہ محروم ہیں ۔ و ذٰلک الفضل من اللّٰه۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے فرشتوں سے ان کو سجدہ کرایا۔ جس سے ان کی فضیلت اور شرف کا اظہار مقصود تھا، لیکن خدا تعالیٰ خود اس سجدے میں شریک نہ تھا، محض فرشتوں نے سجدہ کیا اور سجدہ بھی ایک بار ہوا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اس کے مقابلے میں صلاۃ عطا ہوئی، اس میں فرشتوں کے ساتھ مومنوں اور خدا کا بھی اشتراک ہے اور ہر وقت پڑھا بھی جاتا ہے، جیساکہ آیتِ مذکورہ میں ﴿یُصَلُّوْنَ﴾ مضارع کے صیغے سے اس کا ثبوت بہم پہنچتا ہے۔ فافھم ایک اعتراض کا جواب: مخالفینِ اسلام، خصوصًا پادری فنڈر صاحب کا اعتراض، جو انھوں نے میزان الحق میں کیا ہے،
Flag Counter