Maktaba Wahhabi

542 - 548
کوئی بھی اس کی مرضی کے بغیر بول نہیں سکتا۔ شیخ سعدی نے کہا ہے: گر بمحشر خطاب قہر کند انبیا را چہ جائے دم زدن ست دراں دم کہ از فعل پرسند وقول اولو العزم را تن بلرزد زہول [قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اگر قہر وجلال سے کلام کرے تو انبیا کو بھی دَم مارنے کی گنجایش نہیں ہے۔ جس وقت انسان کے قول وفعل کے متعلق باز پرس ہوگی تو بلند حوصلہ لوگ بھی دہشت کے مارے کانپنے لگیں گے] شیخ سعدی چھے سو پچاس ہجری (۶۵۰ھ) میں تھے، اس وقت بھی سارے اہلِ اسلام کا یہی عقیدہ تھا۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سارے اولین وآخرین گھبرائیں گے۔ کوئی شخص جنابِ باری تعالیٰ کے سامنے بول نہ سکے گا۔ ہر کوئی اپنی ندامت ظاہر کرے گا۔ اولوا العزم انبیا اپنی خطاؤں کا ذکر کرکے شفاعت کرنے سے انکار کریں گے۔ آدم سے لے کر مسیح تک سب پہلو تہی فرمائیں گے۔ آخر کار جناب سید المرسلین، خاتم النبیین، شفیع المذنبین، فخر الاولین و الآخرین اور افضل النبیینصلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ التجا کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سفارش بارگاہ عالمِ پناہ رب العالمین، ار حم الراحمین، اکرم الاکرمین، احکم الحاکمین میں کریں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمود میں جا کر سجدے میں سر رکھ کر پڑے رہیں گے۔ حمد و ثنا کرتے رہیں گے۔ پہلا کام یہی ہوگا۔ شاید بعض روایات میں اس سجدے کی مدت سات دن آئی ہے۔ [1] تب کہیں شاہنشاہ حقیقی مالک الملک وحدہ لا شریک لہ فرمائے گا: تم سر اٹھاؤ،کیا کہتے ہو؟ عرض کرو۔ اس وقت خاتم النبیین گناہ گاروں کی شفاعت کے لیے لب کشائی فرمائیں گے۔ اللہ پاک منظور فرماکر ایک حد مقرر کردے گا، جن کے بارے میں شفاعت کی اجازت ہوگی۔ صحیح بخاری میں آیا ہے: (( فَیُحَدُّ لِيْ حَدًّا )) [2] [میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی]
Flag Counter