Maktaba Wahhabi

527 - 548
[الأعراف: ۵۴] [سنو! اللہ ہی کے لیے خلق اور امر ہے] اور آیت ﴿وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ [المائدۃ: ۱۷، ۱۸] [اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی حکومت ہے] وغیرہ آیات اس بات پر دلیل ہیں کہ خلق، تدبیر، تصرف اور تقدیر میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے، کسی غیر کو خلق وامر میں کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ سب اللہ کے حکم و قہر اور تصرف کے تابع ہیں۔ پیدا کرنا، مارنا اور جلانا صرف اسی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ﴾ [الفاطر: ۱۳] [اور اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں] ﴿دُوْنِہِ﴾ کا لفظ عام ہے، اس میں اللہ کے سوا ہر ولی اور شیطان داخل ہے، تو جس کو اپنی جان پر قدرت نہ ہو، وہ غیر کی کیا مدد کرے گا؟ غیر اللہ کے تصرف کا عقیدہ شرک عظیم ہے۔ رہا یہ قول کہ اولیا وغیرہ موت کے بعد تصرف کرتے ہیں تو یہ پہلے قول (تصرف فی الحیاۃ) سے بھی بد تر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ﴾ [المدثر: ۳۸] [ہر شخص اپنے کاموں کے ساتھ گرفتار رہے گا] ایک حدیث میں آیا ہے: (( إِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُہٗ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ )) [1] [جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین باتوں کے] یہ سب آیات واحادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی ہر حس اور حرکت ختم ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ مردوں کی روحیں روک لی جاتی ہیں اور ان کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑھتے ہیں نہ گھٹتے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ﴾ [الزمر: ۴۲] [پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے جس پر موت کاحکم لگا رکھا ہے] جب میت کو اپنی ذات ہی میں کوئی تصرف باقی نہیں رہتا اور نفس حرکت سے عاجز ہوگیا ہے تو
Flag Counter