Maktaba Wahhabi

507 - 548
اور غلو و مبالغہ اختیار کرنے سے مانع اور اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کام خطواتِ شیطان کی اتباع میں سے ہے۔ جب یہ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے تو پھر کسی اور کی کیا ہستی وحقیقت ہے کہ اس کی تعریف میں غلو ومبالغہ سے کام لیا جائے؟ ایسی تعریفوں سے جناب باری تعالیٰ کے حق میں بے ادبی ہوتی ہے۔ صلحا کی مدح وثنا میں مبالغہ اور غلو کرنا دراصل شرک خفی کی ایک نوع ہے، اسی لیے اللہ نے غلو سے منع فرمایا ہے کہ ﴿لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ﴾ [النساء: ۱۷۱ ] [اپنے دین میں غلو نہ کرو] حد سے زیادہ تعظیم کو غلو کہتے ہیں، چاہے قول سے ہو یا اعتقاد وفعل سے، اس امت کے غالی لوگ اہلِ کتاب کی خصلت رکھتے ہیں۔ یہ غلو در اصل انھیں کے یہاں سے لیا گیا ہے۔ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو، جنھوں نے ان کی مدح میں غلو کیا تھا، آگ میں جلا دیا تھا۔ صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ غلو کرنے والوں کی سزا قتل ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّيْ لَا أُرِیْدُ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزِلَتِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَنِیْھَا اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ )) [1] (رواہ رزین) [میں نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مرتبہ عطا کیا ہے، تم اس سے زیادہ میری تعظیم کرو۔ میرا نام محمد بن عبد اللہ ہے۔ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں] یہ حدیث اس بات پر نص صریح ہے کہ ممدوح کی تعریف وتوصیف میں غلو اور مبالغہ کرنا سخت ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو وصف شرع میں نہیں آیا ہے یا اللہ نے اس کا حکم نہیں کیا ہے، اس سے سکوت کرنا احوط واولی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث اس کی موید ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَإِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ، فَإِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ )) [2] (رواہ أحمد و الترمذي و ابن ماجہ) [غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاکت میں ڈال دیا تھا] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اعتقادات اور اعمال واقوال میں غلو کی تمام انواع کو عام ہے۔[3]
Flag Counter