Maktaba Wahhabi

490 - 548
کے سوا نہ کوئی غیاث (فریاد رس) ہے نہ مستغاث (جس سے فریاد چاہیں) اور نہ غوث (مددگار) بلکہ علی الاطلاق اور بے روک ٹوک ہر طرح کی فریاد رسی اللہ ہی کرتا ہے، کیونکہ غیاث ومغیث اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے، اسی کو ’’غیاث المستغیثین‘‘ (فریاد طلب کرنے والوں کی فریاد رسی کرنے والا) کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں غوث اعظم اور مشکل کشا اللہ ہی ہے نہ کہ شیخ عبد القادر نہ علی مرتضی نہ اور کوئی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ﴾ [الأنفال: ۹] [جس وقت تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمھاری فریاد سنی] صحیحین میں آیا ہے: (( اَللّٰھُمَّ أَغِثْنَا )) [1] [اے اللہ! ہماری فریاد رسی کر یا ہم پر بارش نازل فرما] ابو یزید بسطامی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا ایسا ہے جیسے ایک ڈوبنے والے کا دوسرے ڈوبنے والے سے یا کسی قیدی کا دوسرے قیدی سے استغاثہ اور فریاد کرنا۔ دوسرا لفظ استعانت (مدد مانگنا) ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مخلوق سے ان دنیوی امور میں مدد لینا جن پر اس کو قدرت حاصل ہے، یہ بلا اختلاف جائز ہے، جیسے سواری پر سامان بار کرا دینا، جانور کو چارہ کھلانا، کسی کا سلام وپیغام پہنچا دینا، کسی کاکپڑا سی دینا، کھانا پکا دینا، گھر بنا دینا، اسی طرح سارے تمدنی امور اس میں داخل ہیں۔ رہے وہ امور جن پر اللہ کے سوا کسی مخلوق کو قدرت حاصل نہیں ہے تو ان میں اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا بالکل جائز نہیں ہے۔ ﴿اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کے یہی معنی ہیں۔ جیسے کسی زندے یا مردے سے بیٹا مانگنا، رزق مانگنا، مصیبت اور بلا کا ازالہ چاہنا وغیرہ؛ یہ سب شرک ہے۔ حکایت: ایک باد شاہ نے جہاد کے وقت کہا: ’’یا خالد بن الولید!‘‘ پھر دشمن کی فوج پر حملہ کرنا چاہا۔ وہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی موجود تھے، کہا: تم یہ کیا کہتے ہو؟ اللہ سے مدد مانگو اور یوں کہو: ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ [ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے] اس بادشاہ نے یہی کہا اور اللہ تعالیٰ نے فتح یاب کر دیا۔ وللّٰہ الحمد۔
Flag Counter