Maktaba Wahhabi

479 - 548
﴿وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ﴾ [الواقعۃ: ۸۲] [اور تم اپنا شکریہ یہ ادا کرتے ہو کہ تکذیب کرتے ہو] حالانکہ نوء، نجم اور کوکب کا نزولِ باراں میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ کام تو اللہ ہی کا ہے، لیکن مشرک لوگ بات نہیں سمجھتے۔ 5۔صحیح بخاری میں آیا ہے کہ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے تارے تین کام کے لیے بنائے ہیں۔ ایک شیاطین کو آسمان سے مار بھگانے، دوسرے آسمان کی زینت اور تیسرے راستوں کی علامت کے لیے۔ جس نے ان کی تاویل کچھ اور کی، وہ خطا کھا گیا اور اس نے اپنا نصیب ضائع کیا اور اس نے ایسی بات کے لیے تکلیف اٹھائی جس کا اسے کوئی علم نہیں ہے۔[1] امام ربیع بن زیاد رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’اللہ نے تارے میں کسی کی حیات رکھی ہے نہ کسی کا رزق اور نہ کسی کی موت ۔‘‘[2] یہ تارے، چوپائے اور پرندے غیب کی بات کیا جانیں؟ اگر کوئی غیب داں ہوتا تو آدم علیہ السلام ہوتے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا، فرشتوں سے سجدہ کرایا تھا، آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے تھے۔ ابطالِ نجوم کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نجوم کا سیکھنا اور منازلِ قمر کا معلوم کرنا سرے سے حرام ہے۔ سلف میں سے کسی نے قبلۂ نماز معلوم کرنے کے لیے بھی علمِ نجوم سے کام نہیں لیا۔ یہ بدعت آخر زمانے میں نکلی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پنج گانہ کے اوقات کو ایسا صاف اور واضح کرکے بیان کیا ہے کہ ہر بچہ، بوڑھا، مرد، عورت، شہری، دیہاتی اور عالم وجاہل اس کو پہچان سکتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں منجم (نجومی) کو کاہن، کاہن کو ساحر (جادوگر) اور ساحر کو کافر فرمایا ہے۔[3] (رواہ رزین)
Flag Counter