Maktaba Wahhabi

476 - 548
(( تَقُوْلُوْنَ: مُطِرْنَا بِنَوئِ کَذَا وَکَذَا وَبِنَجْمِ کَذَا وَکَذَا )) [1] [تم کہتے ہو فلاں فلاں نچھتر اور فلاں فلاں ستارے سے ہمیں بارش حاصل ہوئی] صحابہ کی ایک جماعت اور جمہور مفسرین کا یہی قول ہے۔ 2۔سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں، ان میں ایک ستاروں سے بارش طلب کرنے کو بھی ذکر فرمایا ہے۔ (رواہ مسلم) [2] اس سے مراد بارش کی نسبت نچھتر اور تارے کی طرف کرنا ہے۔ جاہلیت سے مراد وہ زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھا اور ہر وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے خلاف ہے، اسے بھی جاہلیت کہا جاتا ہے۔ 3۔مسند احمد میں جابر سوائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَخَافُ عَلٰی أُمَّتِيْ ثَلَاثاً: اِسْتِسْقَائاً بِالنُّجُومِ )) [3] [مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا خوف ہے، ان میں سے ایک ستاروں کی طرف بارش کی نسبت کرنا ہے] بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ جس نے یہ کہا: فلاں تارے سے ہم کو بارش حاصل ہوئی تو یہ دو حال سے خالی نہیں ہے: 1۔ایک یہ کہ کہنے والے کا اعتقاد یہ ہے کہ تارے کو نزولِ بارش میں کچھ تاثیر ہے تو یہ عقیدہ وہی شرک وکفر ہے جس پر اہلِ جاہلیت تھے یا جس طرح موجودہ زمانے کے قبر پرست کہتے ہیں کہ میت وغائب کی دعا سے ہم کو نفع و ضرر حاصل ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی شرک کو مٹانے کے لیے آئے تھے اور اسی کے سبب قتال کیا تھا۔ 2۔دوسرے یہ کہ یا اس قائل کا یہ اعتقاد ہے کہ موثر اکیلا اللہ ہے، لیکن عادت یوں ہی جاری ہے کہ جب فلاں تارہ ساقط ہوتا ہے تو پانی برستا ہے۔ سقوطِ نجم کی طرف مطر (بارش) کی یہ نسبت بھی حرام ہے،گو بطور مجاز ہو، کیونکہ اس قائل نے اس فعل کو جس پر اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں
Flag Counter