Maktaba Wahhabi

458 - 548
روایت کے مطابق یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ آیت: ﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ﴾ [الزمر: ۵۳] نازل ہوئی تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! شرک؟ یعنی کیا وہ بھی بخش دیا جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، وہ پھر کھڑا ہوا اور دو تین بار یہی بات کہی، تب یہ آیت جو اس باب کے شروع میں مذکور ہے، نازل ہوئی۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشرک کو جو شرک پر مر گیا ہے، نہیں بخشتا، البتہ شرک کے سوا اور گناہ والوں میں جسے چاہتاہے، بخشتا ہے۔ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ صاحبِ کبیرہ جب توبہ کے بغیر مر جاتا ہے تو وہ مشیتِ الٰہی کے تحت ہوتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو اس کو معاف کرکے اپنے فضل وکرم سے بہشت میں پہنچائے یا چاہے تو عذاب دے کر پھر اپنی رحمت واحسان سے داخل بہشت کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کی مغفرت کا وعدہ کیا ہے جو شرک سے کم ہیں۔ ہاں اگر شرک پر مر جائے گا تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت اس پر دلیل ہے۔ ’’شرک پر تہدید والی آیت میںفرقہ معتزلہ اور قدریہ کا رد بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صاحبِ کبیرہ کی مغفرت حکمت کی رو سے جائز نہیں ہوتی اور اہلِ سنت یہ کہتے ہیں کہ اللہ جو چاہے سو کرے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ہم عہدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس شخص کو جو گناہ کبیرہ پر مر گیا ہے، ناری کہتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ الخ﴾ نازل ہوئی، تب ہم یہ کہنے سے رک گئے۔[1] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین! ایک آدمی نے تمام اعمال صالحہ کیے اور کوئی عملِ خیر باقی نہیں چھوڑا، لیکن وہ مشرک ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جہنم میں جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک آدمی نے کوئی برا کام باقی نہیں چھوڑا، البتہ شرک نہیں کیا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ جانے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے امید ہے کہ جس طرح شرک کے ساتھ کوئی عمل نفع نہیں دیتا، اسی طرح توحید کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ ’’صاحبِ گناہ کبیرہ کی عدم مغفرت سے مراد یہ ہے کہ وہ مخلد فی النار (ہمیشہ کے لیے جہنم میں
Flag Counter