Maktaba Wahhabi

422 - 548
بات کہنے سے روک دیا تو مرد عاقل کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ایسا شعر کہے یا کوئی اس کو سن کر پسند کرے؟ جس طرح یہ شعر ہے: بقلم گر نرسید انگشتش بود لوح وقلم اندر مشتش [آپ کی انگشت مبارک نے قلم سے اگر چہ لکھا نہیں، لیکن لوح وقلم آپ کی مٹھی میں تھے] اس مضمون کو صاحبِ قصیدہ بردہ اور میر آزاد بلگرامی نے بھی عربی زبان میں باندھا ہے، جو اللہ اور رسول دونوں کی شان میں بالکل بے ادبی ہے۔ بخاری شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا:’’جس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، اس نے جھوٹ کہا۔‘‘[1] سنن ترمذی میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ’’جو کوئی تم سے یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ باتوں کو جانتے تھے جو سورت لقمان کی آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ۔۔۔ الآیۃ﴾ میں مذکورہیں تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا ہے۔‘‘[2] اس سے ثابت ہوا کہ جو کوئی یہ بات کہے کہ پیغمبر یا امام غیب کی بات جانتے تھے، مگر ادبِ شریعت کی وجہ سے زبان سے نہیں نکالتے تھے تو وہ بہت بڑا جھوٹا ہے، کیونکہ غیب کی بات اللہ کے سوا کوئی نہیںجانتا۔ ہم ایسا کہنے والے کو سچا کہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا سمجھیں؟ جنھوں نے یہ فرمایا ہے: (( وَاللّٰہِ لَا أَدْرِيْ، وَأَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، مَا یُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِکُمْ؟ ))(أخرجہ البخاري) [3] [اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود یہ نہیں جانتا کہ میرے اور تمھارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟] یہ کس قدر اہم اور تاکیدی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی قسم کھا کر اور اپنی ذات کو اس کا رسول بتا کر فرمائی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اس بات کی دلیلِ صریح ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں سے خواہ دنیا میں یا قبر میں یا آخرت میں جو کچھ معاملہ کرے گا، اس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہے۔
Flag Counter