Maktaba Wahhabi

394 - 548
﴿اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾ [البقرۃ: ۱۸۶] [جب دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتاہوں] یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں پر دعا ندا اور سوال کے معنی میں ہے، کیونکہ انھوں نے یہ کہا تھا کہ اگر ہمارا رب قریب ہو تو ہم چپکے چپکے مانگیں اور اگر دور ہو تو اس کو پکاریں، اسی بات پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معلوم ہوا منادیٰ (پکاری جانے والی ہستی) اللہ ہی ہے، جس نے اس کے سوا کسی اور کو پکارا یا اس سے کچھ مانگا تو اس نے کھلا شرک کیا۔ قصہ آدم وحواعلیہما السلام میں آیا ہے کہ ان دونوں نے اللہ سے یہ دعا کی تھی کہ اگر تو ہم کو ولد صالح دے گا تو ہم تیرا شکر بجا لائیں گے، جب اللہ نے بچہ دیا تو انھوں نے شرک کیا۔[1] ان سے یہ شرک طاعت میں ہوا تھا، عبادت میں نہیں۔ مفسرین نے دعاکے پانچ معنی حسب مقام ہرآیت کے تحت لکھے ہیں، لیکن دعا کے اصل معنی ایمان ہیں۔ قاموس میں ہے: ’’الدعاء رغبۃ إلی اللّٰہ ‘‘[2]دعا کے معنی اللہ کی طرف جھکنا اور ذلت وعاجزی سے مانگنا ہے۔ مشہور معنی یہ ہے کہ اللہ رفیع الدرجات کے سامنے حاجات کو پیش کرنا۔ احادیث میں اس بات پر سخت وعید اور ممانعت بھی آئی ہے کہ کوئی آدمی کسی سے مال کا سوال کرے، جب کہ اس کے پاس صبح و شام کا کھانا موجود ہو۔ اب اگر کوئی شخص مردوں سے قضاے حاجات کا سوال کرتا ہے اور خالقِ ارض وسماوات سے نہیں مانگتا تو یہ کب اور کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ یہ تو بالکل شرک ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ [الأحقاف: ۵] [اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے سوا ان کو پکارتے ہیں جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے، وہ تو ان کا پکارنا سنتے تک نہیں ہیں] یہ آیت محل نزاع میں نص اور اس بات پر دلیل ہے کہ دعا عین عبادت ہے اور عبادت عین دعا
Flag Counter