Maktaba Wahhabi

297 - 548
اسی اثنا میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: (( اِحْتَجَّ آدَمُ مُوْسیٰ )) [1] کا تذکرہ بھی آیا۔ اس پر عیسیٰ بن جعفر نے کہا کہ آدم و موسیٰ علیہم السلام کی باہم دگر گفتگو کیوں کر ہوئی حالانکہ ان دونوں میں ہزاروں برس کا فاصلہ ہے؟ اس کا یہ کہنا تھا کہ ہارون الرشید غصے سے اچھل پڑے اور یہ کہنے لگے کہ وہ (ابو معاویہ ضریر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہے ہیں اور تو اس پر کہتا ہے کہ یہ کس طرح ہوا؟ ہارون کا غصہ ٹھنڈا ہونے تک ان کی زبان پر یہ کلمہ برابر جاری رہا۔‘‘ امام صابونی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخبار و احادیث کی قدر و تعظیم کیا کرے اور رضا و تسلیم اور قبول و تصدیق سے پیش آتا رہے۔ جو شخص اس کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرے گا اور حدیث صحیح سن کر چوں وچرا زبان پر لائے گا یا دل میں حدیثِ رسول کے قبول کی بابت تردد و شک پائے یا اس کے مضمون کو مستبعد ومنکر بتائے تو اس پر ہارون الرشید کی طرح سخت انکار کرنا چاہیے۔ اسی طرح صحیح سندوں کے ساتھ مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کو قبول کرنا لازم و ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جو اس کے کلام کو سن کر اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور دنیا میں تمام عمر کتاب و سنت پر قائم رہتے ہیں اور اپنے فضل و کرم سے ہمیں گمراہ کن ارادوں، کمزور قسم کی آرا اور گمراہی میںمبتلا کرنے والے گناہوں سے محفوظ فرمائے۔ امام صابونی رحمہ اللہ کا حاصل کلام تمام ہوا۔[2] ہمارے زیر نظر امام صابونی رحمہ اللہ کے اصل رسالے پر حافظ عبدالغنی بن عبدالوحد کا، جو ایک مشہور امام ہیں، مصنف رسالے تک مع سند سماع لکھا ہے۔ اس سند کے رجال حفاظ ہیں۔ اس پر تاریخِ سماع ۵۸۲ھ مرقوم ہے۔ حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے ’’کتاب العلو‘‘ میں لکھا ہے کہ اسماعیل بن عبدالغافر نے امام الحرمین رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ مکہ معظمہ میں مختلف مذاہب کے بارے میں مجھے خلجان اور تردد پیدا ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے فرماتے ہیں کہ تم صابونی والا عقیدہ اختیار کرو۔[3] انتھیٰ۔
Flag Counter