Maktaba Wahhabi

291 - 548
دوسرے گروہ کو جہنم میں جانے اور عذاب اٹھانے کے لیے پیدا کیا۔ جہنمیوں کو جو تکلیف اور عذاب ہو گا، وہ عدل و انصاف کے مطابق ہو گا نہ کہ ظلم و جبر کے سبب۔ کسی کو اللہ نے گمراہ اور بدبخت بنایا ہے اور کسی کو ہدایت یافتہ اور نیک بخت ٹھہرایا ہے، کسی کو رحمت سے قریب کیا ہے اور کسی کو دور۔ اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں کسی کا جواب دہ نہیں ہے، اس کے برعکس بندوں سے ہر عمل کی بابت پرسش ہونے والی ہے۔ توبہ کرنے والے سے عذاب کا ٹال دینا عقل کے موافق اللہ پر واجب نہیں ہے کہ وہ خوامخواہ ایسا ہی کر دے، بلکہ یہ تو اس کے فضل و رحمت کا تقاضا ہے کہ توبہ کے بعد عذاب نہ دے۔ رہی بحث شرعی طور پر توبہ کے قبول ہونے کی تو جو شخص کسی گناہ کبیرہ سے توبہ کرے تو اس کے کسی دوسرے کبیرہ گناہ میںمبتلا ہونے کے باوجود اس کی توبہ صحیح ہو گی اور اس گناہ کا اس سے مواخذہ نہیں ہو گا۔ جن صغیرہ گناہوں سے توبہ نہ کی ہو گی، عدل و انصاف کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کو ان پر گرفت کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ اہلِ سنت کا کہنا ہے کہ مسلمان آدمی اگر بے شمار گناہوں کا مرتکب ہو کر توبہ کیے بغیر فوت ہو جائے تو اسے بے حد گناہ گار ہونے کے باوجود کافر نہ ٹھہرائیں گے بشرطیکہ خاتمے تک وہ اخلاص اور توحید پر قائم رہا ہو، کیونکہ اس کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے، چاہے تو تمام گناہوں سے درگزر کر دے اور قیامت کے روز صحیح سلامت بہشت میںپہنچا دے۔ اس کے اعمال و افعال پر کسی طرح کا حساب و کتاب نہ ہو اور ہر قسم کی تکلیف و عذاب سے کلی طور پر رہائی پائے۔ اگر اللہ چاہے تو میعادِ سزا اور نصابِ عذاب تک اسے جہنم میں رکھے، بہر حال وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں پڑا رہے گا، بلکہ آخرکار جنت میں ضرور داخل ہو گا۔ حاصل کلام یہ کہ ایماندار گناہ گار اگرچہ آگ میںرکھ کر عذاب دیا جائے گا، مگر وہ کفار کی طرح آگ میں پھینکا جائے گا نہ وہ ان کے ساتھ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور نہ کافروں کی طرح بدبخت سمجھا جائے گا۔ جب کہ کافر اللہ کی رحمت سے کلی طور پر محروم ہوں گے، کسی حال میںانھیں راحت و آرام کی امید بھی پیدا نہیں ہو گی۔ رہے مومن تو انھیں ہر زمانے میں اللہ کی رحمت پر بھروسا رہے گا۔ ان کا انجام جنت ہے، اسی لیے وہ جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور جنت ان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اللہ کے فضل و رحمت کا یہی تقاضا ہے۔
Flag Counter