Maktaba Wahhabi

207 - 548
پھر ان رسوم میں بعض کفر کی رسمیں ہیں، جیسے کنگنا، سہرا اور بعض حرام ہیں۔ جو اس کو اچھا جان کر خوش ہو، وہ کافر ہے مسلمان نہیں، جیسے ناچ۔ بعض مکروہ تحریمی ہیں، جیسے مرد کی پوشاک سرخ یا زرد ہو، نقارے، ڈھول، آتش بازی اور مرد کا گھر کے اندر بے گانہ عورتوں میں جانا کہ وہ انھیں اور یہ اس کو دیکھتی ہیں، پھر ان عورتوں کے ساتھ کھیلنا اور بھی زیادہ حرام ہے۔ ان میں بعض کام خلافِ سنت ہیں، جیسے شادی سے پہلے کھانا کرنا اور آرایش، چوتھی اور مہر کا زیادہ مقرر کرنا۔ اگر نیت مہر دینے کی نہیں ہے تو وہ نکاح حکمِ زنا میں ہے۔ پھر ان سب رسموں کو لوگ لوازماتِ نکاح سے سمجھتے ہیں کہ ان رسوم کے بغیر نکاح بے حقیقت ہے، حالانکہ نکاح میں دوگواہوں کے سامنے ایجاب وقبول اور کچھ مہر کا تقرر چاہیے اور کچھ نہیں۔ یہ اسراف جو شادی بیاہ میں ہوتا ہے، بالکل خلافِ سنت اور حرام مطلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا * اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا﴾ [الإسرائ: ۲۶، ۲۷] [اور اسراف وبے جا خرچ سے بچو، بے جا خرچ کرنے والے یقینا شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے] یعنی مال اللہ نے اس لیے دیا ہے کہ اللہ کی مرضی کی جگہ میں خرچ ہو اور یہی مال کا شکر ہے، جبکہ شیطان چاہتا ہے کہ رائیگاں بے کار خرچ ہو، تاکہ اللہ آدمی سے ناراض ہو اور یہی اللہ کی ناشکری ہے۔ سو بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ شادی کے جو مصارف ایسے ہیں جس کا حکم اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا ہے، وہ سب حرام ہیں۔ سودی قرض لے کر یا بھیک مانگ کر صرف کرنا اور بھی زیادہ حرام ہے، کیونکہ یہ دوہرا گناہ ہے۔ گناہ کے کام میں اگرچہ آدمی ثواب کی نیت کرے، مگر عذاب ہی ہوتا ہے اور گناہ کے کام میں ثواب سمجھنا بھی کفر ہے۔ نیز فرمایا: ﴿ وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ﴾ [الأنعام: ۱۴۱] [اور اسراف نہ کرو یقینا وہ اسراف کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے] معلوم ہوا کہ مال کا بے جا خرچ کرنا حرام ہے اور مُسرف کو اللہ دوست نہیں رکھتا، بلکہ وہ اللہ کا مخالف ہوتا ہے اور اس کام میں برکت نہیں ہوتی، بلکہ نحوست آ جاتی ہے۔ ایسے نکاح سے جو اولاد پیدا
Flag Counter