Maktaba Wahhabi

199 - 548
اب یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ اور قوم کے لوگ مفلس مسلمان کو اپنے برابر نہیں بیٹھنے دیتے اور اگر کوئی دُھنیا جولاہا السلام علیکم کرے تو ناخوش ہوتے ہیں کہ اس نے ہم کو اپنے برابر جانا۔ یہ نہ جانا کہ وہ بھی ہمارا بھائی ایک آدم وحوا کی اولاد ہے۔ سو یہ فخر کرنا، اپنی ذات کی بڑائی بیان کرنا اور اپنے آپ کو بڑا جاننا کافروں کی رسم ہے اور قرآن وحدیث کی رو سے ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یاَیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ [الحجرات: ۱۳] [لوگو! ہم نے تم کو ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تم کو قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے تا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ تم میں پرہیزگار ہے] یعنی ذاتیں فقط تعارف اور پہچان کے لیے ہیں۔ بزرگی اور بڑائی اللہ کے نزدیک محض تقویٰ میں ہے۔ جو بڑا متقی ہے، وہی بڑا بزرگ ہے، اگرچہ کم ذات ہو۔ جس کو اللہ کا ڈر نہیں ہے، وہ بدتر ہے، اگرچہ عالی ذات ہو۔ پرہیز گار موچی، دُھنیا، جولاہا، کسی فاسق شیخ، سید، پٹھان مغل سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ رہا نکاح میں کفائت کا اعتبار تو وہ فقط اس لیے ہے کہ مرد عورت میں موافقت رہے اور گھر میں فساد نہ پڑے۔ بالغہ عورت اگر اپنا نکاح کسی غیر کفو سے آپ کر لے تو اس پر کسی کو اختیار نہیں کہ فسخ کرے، لہٰذا اس سے ذات کی کوئی بڑائی نہیں ثابت ہوتی۔ کفاء ت میں جیسا ذات کا لحاظ ہے ویسا ہی دین داری و مال داری کا بھی لحاظ ہے، اس کے سوا ذات کا لحاظ مسئلے کی رو سے فقط عرب کے لوگوں کے لیے ہے، ان کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ ٓاَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلاَ یَتَسَائَ لُوْنَ﴾ [المؤمنون: ۱۰۱] [پس جبکہ صور پھونک دیا جائے گا اس دن نہ تو آپس کے رشتے رہیں گے اور نہ آپس کی پوچھ گچھ] یعنی قیامت کے دن کسی کے نسب وذات کا کچھ لحاظ نہیں کیا جائے گا، بلکہ کم ذات متقی کی عزت صاحبِ نسب بدکار سے زیادہ ہو گی۔ غلام بہشت میں جائے گا اور آقا دوزخ میں ہو گا۔ فرمایا:
Flag Counter