Maktaba Wahhabi

144 - 548
﴿وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ [المنافقون: ۱] [اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں] حالانکہ نفس الامر میں یہ بات ٹھیک تھی۔ معلوم ہوا کہ زبان سے کہنا جب سچا ٹھہرتا ہے کہ دل میں بھی یقین ہو اور اگر زبان سے کہا اور دل میں وہ بات نہیں ہے تو یہ نفاق ہوا نہ کہ اسلام۔ اور اگر دل سے سچا جانا اور زبان سے نہ کہا تو بھی مسلمان نہیں ہے، ہاں اگر گونگا ہے تو یہ اور بات ہوئی۔ پھر جس نے دل اور زبان دونوں سے بلاشک کہا تو گویا اس نے یہ بات کہی کہ میں مشرک، بت پرست، ستارہ پرست، پیر پرست، گورپرست اور امام پرست نہیں ہوں اور مجوس، صابئین، ہنود، یہودیت اور نصرانیت وغیرہ سب دینوں سے دست بردار ہوں، کیونکہ اس نے یہ اقرار کر لیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کروں گا۔ عبادت یہ ہے کہ کسی کی بے حد تعظیم کے لیے اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ سو عبادت اسی کے لیے زیبا ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو، بلکہ سب اس کے محتاج ہوں، ورنہ پھر محتاج محتاج برابر ہوئے۔ ایک محتاج دوسرے محتاج کی عبادت کیوں کرے؟ جو شخص کلمہ کہے اور اس کے معنیٰ نہ جانے تو اس کا ایمان نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید کا اقرار کرے اور ’’محمد عبدہٗ ورسولہ‘‘ کا مطلب نہ سمجھے یا سمجھے اور انکار کرے تو وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔ اس کلمے سے معلوم ہوا کہ پیغمبر بھی بندہ ہی ہوتا ہے نہ کہ خدا، اگر خدا ہوتا تو پیغام کس کی طرف سے لاتا؟ پھر جب بندہ ٹھہرا تو اس پر خدا کی بندگی بھی فرض ٹھہری۔ اس کو سب مخلوق سے چن کر اس لیے بھیجا کہ وہ اوصافِ کمال اور اخلاقِ حسنہ کا جامع ہے۔ رسول ہو کر آنے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سارے بشر مکلّف ہیں۔ ان کو حکمِ خدا کے بہ موجب کام کرنا چاہیے، وہ خود مختار نہیں ہیں۔ اللہ نے انسان کو کاسب بنایا ہے، اگر بالکل بے اختیار ومجبور ہوتا تو محل امرو نہی کیوں ٹھہرتا؟ پیغمبر کے لیے ضروری ہے کہ معجزہ لائے جس سے اس کی تصدیق ہو اور سچا ہو، کبھی جھوٹ نہ بولتا ہو، گناہ سے معصوم ہو، چپ چاپ نہ بیٹھے بلکہ اللہ کا حکم اس کی خلق کو پہنچائے۔ جو باتیں بشریت سے متعلق ہیں جیسے کھانا، پینا، سونا جاگنا، نکاح کرنا، بول وبراز کا ہونا، یہ پیغمبر کے حق میں نقصان نہیں۔ اگر یہ باتیں اس میں نہ ہوں تو پھر وہ کاہے کو آدمی ٹھہرے؟
Flag Counter