Maktaba Wahhabi

130 - 548
معلوم ہوا کہ محبِ سنت، محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے۔ اس کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرافقت ہاتھ آتی ہے، لہٰذا جب نری محبتِ سنت کا یہ ثمرۂ نافعہ ہے تو عامل بالسنۃ کا اللہ جانے کیا کچھ مرتبہ عالی ہو گا۔ اس حدیث سے یہ بھی سمجھا گیا کہ جو کوئی مخالفِ سنت ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا مدعی ہے، وہ کاذب ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی تو یہی ہے کہ سنت کے موافق عمل کرے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ عامل بالسنۃ بڑے درجے کا بہشتی ہے کہ بہشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ صبح سے شام اور شام سے صبح تک کسی متبع سنت کا دل میں بغض وکینہ نہ ہو۔[1] سنت پر عمل کرنے کا اجر حدیث میں بے حساب آیا ہے۔ 23۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً کہتے ہیں کہ جس نے فسادِ امت کے وقت میری سنت کے ساتھ تمسک کیا تو اس کے لیے سو (۱۰۰) شہید کا اجر ہے۔ اس کو بیہقی نے کتاب الزہد میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے۔[2] اس حدیث میں عامل بالحدیث کے واسطے بشارتِ عظیمہ ہے، اس لیے کہ تمسک، سنت پر عمل کرنے سے عبارت ہے اور فساد سے مراد بدع وجہالت ہیں، جن میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں۔ جب ایک شہید کا اجر غیر شہید سے کہیں بڑھ کر ہے تو سو (۱۰۰) شہید کے اجر کا کیا حساب ہے؟ شہادت سے مراد اس جگہ اللہ کی راہ میں شہادت ہے نہ کہ شہادتِ صغریٰ، کیونکہ عمل بالحدیث میں وہ آفات وامتحانات ہوتے ہیں جن کی برابری جہاد فی سبیل اللہ میں مشقت و محنت کے سوا کوئی شے نہیں کر سکتی ہے۔ ’’تذکیر الإخوان‘‘ میں کہا ہے: ’’اب اسی اختلاف وبدعات کا وقت ہے کہ ہر شخص اپنی ہی گاتا ہے اور جو جس کے جی میں آتا ہے بے دھڑک کرتا ہے۔ کوئی کسی بدعت کو فرض جانتا ہے اور کوئی واجب اور کوئی سنت اور کوئی مستحسن اور کوئی مصلحتِ وقت اور کوئی بزرگوں کی رسم۔ سو ایسے وقت میں جو کوئی سنت پر چلے گا اور اس بدعت سے کنارہ کرے گا، اس کو (۱۰۰) شہید کا ثواب ملے گا، اس لیے کہ ہزاروں بدعتی اس کے دشمن
Flag Counter