Maktaba Wahhabi

123 - 548
[اور یہ دین ہی میرا سیدھا راستہ ہے تم اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا تا کہ تم پرہیز گاری اختیار کرو] اس حدیث کو احمد، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔[1] یعنی اللہ کی راہ سیدھی شاہراہ ہے، اس پر چلو اور دیگر راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو میری راہ سے بہکا دیں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال بنا کر سمجھا دیا کہ شرع کی راہ سیدھی اللہ کی طرف گئی ہے اور اس راہ کے آس پاس لوگوں نے بدعت کی راہیں نکال کر اس راہ میں ملا دی ہیں، سو ان راہوں میں سے ہر ایک راہ پر ایک ایک شیطان بیٹھا ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے اور اس بدعت کی خوبیاں اور تاویلیں اور حیلے حوالے سمجھاتا ہے، سو تم ان راہوں پر نہ چلو۔ معلوم ہوا کہ ایمان کا مقتضا یہی ہے کہ قرآن وحدیث کی سیدھی راہ اختیار کرے اور دوسری راہوں پر نہ چلے۔ جو کوئی متعدد راہوں پر چلتا ہے اور شریعت میں نئی راہ نکالتا ہے تو وہ شیطان کی راہ پر جاتا ہے۔ اس حدیث میں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف کی تائید اور اتباعِ سبل کی نہی آئی ہے، اسی طرح ائمہ اربعہ مجتہدین نے بھی اپنی اپنی تقلید سے نہی فرمائی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ چار مصلوں کا مکے میںہونا اور اہلِ سنت کا چار مذہبوں پر متفرق ٹھہرنا، اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصود کے خلاف بلکہ ممنوع ہے۔ الحاصل سبیل واحد مستطیل سے مراد کتاب وسنت والا صراطِ مستقیم ہے، جس پر تیرہ سو برس سے اہلِ حدیث گامزن ہیں۔ لکیروں سے مراد محدثاتِ امور اور طرقِ بدع ہیں جو سب کج مج ہیں، اسی لیے ان میں سے ہر راہ پر شیطان کا موجود اور داعی ہونا بتایا ہے۔ معلوم ہوا کہ سارے محدثات وبدع خطواتِ شیطان ہیں نہ کہ سبیلِ رحمن۔ ان خطوط کی تعداد کسی حدیث میں نہیں آئی ہے، مگر تفسیر مدارک میں ایک حدیث کے حوالے سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ایک تو سیدھا خط تھا اور باقی اس کے دائیں بائیں چھے چھے خط تھے، پھر جب ہر خط کو ان میں سے چھے چھے بار لیا گیا تو یہ سب بہتر (۷۲) راہیں ہوئیں۔[2] انتہیٰ
Flag Counter