Maktaba Wahhabi

121 - 548
ہاتھ سے لڑے گا وہ مومن ہے اور جو کوئی زبان سے لڑے گا وہ مومن ہے اور جو کوئی دل سے لڑے گا وہ مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے،‘‘ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[1] اس حدیث میں حکم ہے کہ اہلِ بدع سے جہاد کرنا چاہیے۔ ہاتھ سے جہاد کرنا ائمہ کا کام ہے، زبان سے جہاد کرنا علما کا کام ہے اور دل سے جہاد کرنا عوام اہلِ اسلام کا کام ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص ان تینوں قسم کے مجاہدے سے خالی ہے، وہ مومن نہیں ہے، کیونکہ اس جگہ بقاے ایمان کے واسطے کوئی چوتھی شق ذکر نہیں فرمائی۔ یہ ایسی نفی ہے جس سے بدن لرز اٹھتے اور دل کانپ جاتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بدعت کے خلاف جہاد نہ کرنے والے کا ایمان باقی نہیں رہتا تو پھر جو خود بدعت کا موجد ہو گا، اس کے ایمان کا اللہ حافظ ہے۔ وہ تو کسی طرح مومن نہیں رہ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ازالۂ بدعت میں جہاں تک کوشش ہو سکے بجا لائے اور بدعت کے کام کو مٹائے۔ زبان سے اہلِ بدع کو نصیحت اور بدعت کی فضیحت کرے اور بدعتیوں سے دوستی نہ رکھے۔ مجاہدے کے برابر اس کا ایمان قوی وکامل اور مداہنت کے بقدر ضعیف ومفقود ہوگا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جس کام کا حکم نہ ہوا اگرچہ منع بھی نہ کیا ہو تو وہ کام بھی کرنا بدعت ہے۔ جیسے اذان میںچار تکبیر کے بجائے پانچ تکبیر کہنا یا فجر کی دو سنت کی جگہ پر چار رکعت پڑھنا کہ ایسے کام سے بھی منع کرنا ضروری ہے۔ اس جگہ فقط یہی دلیل کافی ہے کہ اس کا حکم شرع میں دلالتاً یا اشارتاً نہیں آیا۔ اس کے فاعل و قائل کے لیے البتہ دلیل چاہیے، خواہ آیت ہو یا حدیث۔ غرض کہ اس حدیث میں زمانۂ نبوت کے بعد حدوثِ بدع کی خبر دی ہے اور مبتدعینِ خلف کی مذمت کی ہے۔ 9۔اس سے زیادہ صریح حدیثِ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ ہے، جس کے الفاظ ہیں: (( فَإِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِيْ فَسَیَریَ اخْتِلَافاً کَثِیْراً، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِھَا، وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ )) [2] [تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم لوگ میری
Flag Counter