Maktaba Wahhabi

119 - 548
محدثات پر شرکا اطلاق کیا ہے، لہٰذا شر میں خیر نہیں ہوتی ہے۔ پھر کس طرح کوئی محدث و بدعت خیر یعنی حسنہ ہو سکتا ہے۔ ہر بدعت کو گمراہی قرار دینا اس بات کی علانیہ دلیل ہے کہ کسی بدعت میں ہدایت نہیں ہے۔ غرض کہ یہ حدیث اپنے اطلاق و عموم پر ہے، اس میں ہر گز تخصیص کا شائبہ نہیں ہے۔ بدعت اور اہلِ بدع کی مذمت میں جتنی احادیث آئی ہیں، ان میں حسن وخیر کا کہیں اتاپتا نہیں ہے۔ کسی حدیث میں بدعت کو نار میں فرمایا ہے،[1] کسی جگہ مبتدع کو ہادمِ اسلام ٹھہرایا ہے اور بدعتی کی توقیر سے منع کیا ہے،[2] کسی مقام میں بدعت کو رافعِ سنت کہا ہے۔[3] یہ سب الفاظ وعبارات تحسینِ بدعات کا استیصال کرتی ہیں، بلکہ بدع کی مذمت خود قرآن میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ رَھْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ﴾ [الحدید: ۲۷] [اور رہبانیت تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہیں کیا تھا] معلوم ہوا کہ بدعت کا حکم اللہ کا نہیں ہوتا ہے۔ اسی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین میں نئی بات نکالنا گویا اپنی ایک جدا شرع مقرر کرنا ہے یا قرآن وسنت میں کمی ثابت کرنا ہے۔ گویا یہ دعویٰ کرنا ہے کہ یہ بات نہ اللہ نے قرآن میں کہی ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی کہ وہ کہہ جاتے، اب ہم نے نکالی۔ پس جو دعویٰ ایسا ہو کہ جس میں ایسی بری بات نکلے تو وہ صریح گمراہی ہے۔ اسی لیے جو بدعت کو نیک کام جان کر کرتا ہے اس کو توبہ کا خیال کیوں آنے لگا؟ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب بدعتیں گمراہی ہیں اور ان میں شرہی شر ہے، خیر کی ہوا بھی نہیں۔ اس صورت میں اہلِ بدعت کو استعمالِ بدعت میں خیر کی امید رکھنا عکس القضیۃ ہوتا ہے۔ کسے در صحن کاچے قلیہ جوید اَضاع العمر في طلب المحال
Flag Counter