Maktaba Wahhabi

116 - 548
سے دل تنگ ہوا اور حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے کی رائے پسند آئی تو اب ایمان کا خدا حافظ ہے۔ اسی لیے دوسری آیت میں قسم کھا کر ایسے شخص سے ایمان کی نفی کی ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حاکم تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [النسآئ: ۶۵] [سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں] یہ ذکر تو زمانۂ حیاتِ نبوی کا تھا، اب ممات کے بعد وہی کتاب وسنت کی تحکیم تاقیامِ قیامت و نفخِ صور باقی ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نص کی تخصیص قیاس سے جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت قول وحکم نبوی کے وجوبِ متابعت پر علی الاطلاق دال ہے، تو اب اس سے غیر کی طرف عدول کرنا ہر گز جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ مبالغہ جو اس آیت میں ہے شاید کسی اور امر میں نہ ہو گا۔ اس عمومِ قرآن کو حکمِ قیاس پر مقدم کرنا واجب کرتا ہے۔[1] اس کلام کو ’’فتح البیان‘‘ میں قوی وحسن کہا ہے۔[2] اب دیکھو کہ علمِ فروع میں جتنی کتب موجود اور متداول ہیں، ان کی غالب بنیاد ان ہی قیاسات پر ہے۔ ان کا ماننا، ان پر چلنا اور کتاب وسنت سے حکم نہ لینا کیسی بات ہے؟ یہ فعل اس آیت کا مصداق ہے یا نہیں؟ یہی حکم اُن رسوم کا ہے جو ولادت وشادی اور ممات میں مروج ہیں، جیسے بیٹے کی ولادت کے وقت بندوقیں چھوڑنا اور بسم اللہ کے لیے چار سال چار ماہ کی قید کرنا۔ بسم اللہ کی شادی کی محفل کرنا، ختنے کی شادی کرنا، منگنی کی رسوم بجا لانا، صفر کے تیرہ دن کو نامبارک سمجھنا، آخری چہار شنبے کو سیر کے لیے جانا، ربیع الاول میں محفل مولود کرنا، ربیع الثانی میں گیارھویں کرنا، جمادی الاولیٰ میں عرس کے لیے مَکَنْ پور جانا، شعبان میں آتش بازی چھوڑنا، خطبہ وداعِ رمضان
Flag Counter