Maktaba Wahhabi

632 - 677
قربان کرتے ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا: ’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ جو افواہ پھیلی ہوئی ہے مشکوک ہے تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ شک و شبہ چھوڑیں اور یقین پر اعتماد کریں ۔ تاکہ لوگوں کی افواہوں سے جو ہم و غم آپ کو لاحق ہو گیا ہے ،اس سے نجات ملے۔ تو انھوں نے بیماری کو جڑ سے کاٹنے کا اشارہ دیا۔‘‘[1] سفیان ثوری نے کہا: ’’علی رضی اللہ عنہ نے اس مشورے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصلحت بھانپ لی۔‘‘[2] یہی شان سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تھی۔ وہ اپنے آپ پر، اپنے گھر والوں پر، بلکہ سب لوگوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دیتے تھے اور جب کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معمولی سی پریشانی یا کوئی صدمہ پہنچتا تو وہ سب اکٹھے ہو کر رونے لگ جاتے۔[3] یہاں جو موقف سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنایا اس کا سبب یہ ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشوں کے بہتان لگانے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حزن و ملال طاری ہو گیا تھا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس غم کے سبب کو جڑ سے اکھیڑنے کی طرف اشارہ کیا اور اس کے اسباب سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دیا اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی محبوب بیوی سے علیحدہ ہونا ہو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کی سب بیویوں سے زیادہ عالی قدر تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کا مرتبہ سب سے عظیم تھا۔ یہ بعینہٖ وہی موقف ہے جو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس وقت اپنایا تھا جب لوگوں میں مشہور ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک کمرے میں ان سب سے علیحدہ ہو گئے ہیں ۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادم رباح کے سامنے خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ بقول عمر رضی اللہ عنہ میں نے بلند آواز سے رباح سے کہا: ((یَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِی عِنْدَکَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ظَنَّ أَنِّی جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَۃَ وَاللّٰہِ لَئِنْ أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِضَرْبِ عُنُقِہَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَہَا))
Flag Counter