نہ کرناکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بین نہیں کیا گیا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بین سے روکتے ہوئے سنا ہے۔[1]
اس اثر میں محل الشاہد صحابی کا یہ کہنا ہے :
’’کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا تھا‘‘ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز میں مخالفت کرتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْحُدُوْدَ وَشَقَّ الْجَیُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ))
’’وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح کی آوازیں لگائے۔‘‘[2]
اگر یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تو ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا معصومۂ عن الخطا نہیں تھیں اور نہ ہم ان کے معصوم ہونے کے دعوے دار ہیں اور نہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے معصوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ نیز عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کیے پر ندامت کا اظہار اور اعتراف کیا کہ انھوں نے جو کچھ کیا ، وہ خطا ہے ۔ جس کی علت انھوں نے یہ بیان کی کہ وہ نو عمر تھیں اور بلاشک حادثہ بہت بڑا تھا اور مصیبت بہت بھاری تھی، جو نبی الامت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے محبوب خاوند کی وفات کی وجہ سے ان پر آئی تھی۔
نیز ان کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی اس غلطی سے توبہ کر لی تھی۔ اس لیے یہ ثابت نہیں کہ ان سے یہ فعل دوبارہ کبھی سرزد ہوا، جب ان کے والد محترم سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یا ان کا کوئی اور
|