Maktaba Wahhabi

459 - 677
اس روایت کا ردّ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے رافضیوں کے شیخ ابن مطہر الحلی[1] کی تردید میں لکھا: ’’پہلے تو اسے یہ کہا جائے گا کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسی صحیح ثابت حدیث کہاں اور کس سے مروی ہے۔‘‘ پھر کہا جائے گا کہ ’’’جو کچھ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے وہ اس روایت کو جھٹلاتا ہے اور مشہور و متواتر روایات سے ثابت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سخت افسوس کیا اور برا جانا اور قاتلوں کی پروزر مذمت کی اور اپنے بھائی محمد اور دوسروں کو اس کے دفاع میں شریک ہونے پر آمادہ کیا۔‘‘[2] پھر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نہایت ہی ذہانت و فطانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’اس روایت سے رافضیوں کی آراء کا تناقض ظاہر ہوتا ہے۔ جو کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عیب جوئی کرتے ہیں ۔ پھر وہ اسی روایت کی وجہ سے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر عیب لگاتے ہیں اور وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی تنقیص کا پہلو نکالتے ہیں ۔ تو کہا جائے گا کہ یہ جو روایت عائشہ سے عثمان رضی ا للہ عنہما پر عیب لگانے کی بابت ہے اگر یہ تحقیق سے صحیح ثابت ہو جائے تو پھر بھی یا تو صواب ہو گی یا غلطی ہو گی اور اگر یہ خبر صحیح ثابت ہو گئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے گناہوں میں شمار نہ ہو گی اور اگر یہ روایت غلط ثابت ہو گئی تو عثمان رضی اللہ عنہ کا گناہ شمار نہ ہو گی اور سیّدہ عائشہ اور عثمان رضی ا للہ عنہما دونوں کی تنقیص قطعی طور پر باطل ہے۔ اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب شہادت عثمان کی خبر ملی تو انھیں بے حد صدمہ پہنچا اور انھوں نے قاتلوں کی فوراً مذمت کی اور ان سے قصاص کا مطالبہ کیا۔ یہ سارے افعال ندامت پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ اس کے منافی ہیں جیسا کہ جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے انھوں نے ندامت کا اظہار کیا اور اگر قتل عثمان پر ان کی ندامت سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے اور عائشہ کی طرف سے علی کے حق پر ہونے کا اعتراف ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ
Flag Counter