اسی لیے صرف اہل سنت کے نزدیک ہی نہیں بلکہ تمام اہل اسلام کے نزدیک کسی دوسرے آدمی کی تصدیق و توثیق کی محتاج نہیں چونکہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کو تزکیہ دے دیا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی توثیق کر دی ہے اور اس حقیقت دینی کا علم ہونا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک شیعہ کے معیار کے مطابق اس حدیث کا حکم ہے تو یہ ان کے معیار کے مطابق بھی ضعیف و مردود ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں جعفر بن محمد بن عمارہ کندی نامی ایک راوی ہے جو شیعوں کے نزدیک بھی مجہول ہے۔
تو اس جعفر کے بارے میں شیعوں کے جرح و تعدیل کے علماء کہلوانے والے بھی اس پر سکوت کرتے ہیں ، نہ کسی نے اس پر جرح کی اور نہ اس کی کوئی تعدیل و توثیق کرتا ہے۔ اسی لیے ہماری صراحت کے مطابق یہ راوی مجہول ہے۔ نیز اس کے بارے میں شیعی عالم علی نمازی شاہرودی نے کہا۔ (علماء جرح و تعدیل نے اس کا تذکرہ نہیں کیا)۔ [1]
۲۔اس روایت میں ’’المرأۃ‘‘ عورت کا نام نہیں لیا گیا، اس لیے یہ بہتان دو پہلوؤں سے مردود ہے۔
الف: روایت میں عائشہ کا نام صراحتاً نہیں ، بلکہ ’’امرأۃ‘‘ کا بھی نکرہ کے طور پر ذکر ہے۔ تو جیسا کہ ہم نے پوری روایت پہلے تحریر کی ہے، اس طرح ہے: ’’تین اشخاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے تھے۔ ابوہریرہ، انس بن مالک اور ایک عورت۔‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ راوی نے عورت کو مبہم ذکر کیا اور صراحت کے ساتھ اس کا نام نہیں لیا۔
ب:جب عورت سے مراد عائشہ تھی تو پھر اس کے نام کی صراحت کیوں نہ کی گئی، کیونکہ کوئی شیعہ ہمیں کہہ سکے کہ مبہم عورت سے مراد عائشہ ہے۔ چنانچہ مجلسی نے ’’بحار الانوار‘‘ وغیرہ میں یہی لکھا ہے۔
ہم اسے کہتے ہیں : اگر عورت سے مراد عائشہ ہی تھی تو راوی نے صراحت کے ساتھ اس کا نام کیوں نہ لیا۔ تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے۔ تب ہم اسے کہتے ہیں ، بہتان تراش کو اپنے جھوٹے بہتان پر شک ہونے کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ اسے بیان کرنے سے عاجز و لاچار ہو گیا۔ چنانچہ جمہور مسلمانوں کے نزدیک وہ ضعیف ہے۔ اگر اسے یقین ہوتا کہ یہ بات حق ہے تو وہ صراحتاً سب کے نام لیتا۔ اگر رافضی کہیں :
|