’’پھر اس جگہ سے واپس آؤ جہاں سے سب لوگ واپس آئیں ۔‘‘[1]
اسی طرح زمانۂ جاہلیت میں انصار مدینہ کے درمیان ہونے والی جنگ بعاث ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے بارے میں کہتی ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے جنگ بعاث کو ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا ذریعہ بنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انصار کی اجتماعیت بکھر چکی تھی اور ان کے معززین[2] قتل ہو چکے تھے اور باقی بچ جانے والے زخموں سے چور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو ان (انصار) کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور اسلام قبول کرنے کا ذریعہ بنایا۔‘‘[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم حاصل کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتی تھیں ۔ جس چیز کے بارے میں ان کو پتا نہ ہوتا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے میں کبھی تامل نہ کرتیں اس کی مثال تعمیر کعبہ کے متعلق ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کا انداز ہے۔ فرماتی ہیں :
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دیوار[4] (حطیم) کے بارے میں پوچھا: کیا وہ بیت اللہ کا حصہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ۔ میں نے کہا: انھوں نے اسے بیت اللہ میں شامل کیوں نہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری قوم کے پاس تعمیر کے اخراجاتکم تھے۔‘‘ میں نے پوچھاکہ اس کا دروازہ سطح زمین سے کافی بلند ہونے کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری قوم نے ایسا اس لیے کیا کہ جسے چاہیں کعبہ کے اندر داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں اور اگر تیری قوم نئی نئی عہد جاہلیت سے نکل کر نہ آئی ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے ناگواری کے اثرات کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور دیوار حطیم کو بیت اللہ کی عمارت میں شامل کرتا اور اس کا دروازہ سطح زمین پر بناتا۔‘‘[5]
اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بے شمار اہم واقعات و غزوات اور شرعی احکامات کی تفصیل نیز
|