کے اموال ناحق کھانے سے لے کر انبیاء کے قتل تک ان کے جرائم تھے۔ انہیں اسلام کے اس طرح جزیرۃ العرب میں غلبے کا گہرا رنج تھا۔ پوری انسانیت کو اپنا بے دام غلام بنانے کا ان کا خواب چکنا چور ہو گیاتھا۔ اب یہود دن رات اسی فکر میں تڑپ رہے تھے کہ کسی طرح ان اصحابِ رسول کی کردار کشی کی جائے اور پر اس طرح تہمت طرازی کی جائے اور اتنا جھوٹ بولا جائے کہ تاریخ میں ان کا چہرہ مسخ ہو جائے اور مسلمان ہی ان پر سوال اُٹھانے لگ جائیں ۔ گویا اہل اسلام میں فرقہ واریت درحقیقت یہودی سازش تھی۔ اس سازش کو انجام دینے کے لیے عبداللہ بن سبا یہودی کو چنا گیا۔ جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیتوں پر الزامات کا سلسلہ شروع کیا ۔ کچھ صحابہ کو دیگرصحابہ پر فضیلت دینے لگاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ اہل بیت سے محبت اصحابِ رسول کے خون میں رچی بسی ہے۔ اسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ابن سبا یہودی نے اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مقام و مرتبہ میں غلو کرنا شروع کیا۔ اہل بیت رضی ا للہ عنہن کے رُتبہ کو بڑھا کر الوہی درجہ تک لے گیا۔ سیّدناعلی علیہ السلام کو خلیفہ بلا فصل قرار دینا، دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لعن طعن ، اتہام و بہتان اور تبرا کا عقیدہ اسی کی ایجاد ہے۔ ابن سبا نے اسلامی لبادہ پہن کرایک عجیب وغریب عقیدہ ایجاد کر دیا جس کا مقصد ایک طرف توحید کی نفی اور دوسری طرف اُمت مسلمہ کے بزرگ ترین ، معتبر ترین اور نیک ترین طبقہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بے اعتبار قرار دینا تھا، یعنی اُن کو (نعوذ باللہ )ایک سازشی گروہ ثابت کرنا مقصد تھا، جس کے بعد خود اسلام کا ہی اعتبار باقی نہ رہ جاتا، اور یہی اس ملعون کا اصل ہدف تھا۔
ابن سبا کی اس چال میں کچھ مسلمان بھی آگئے ، جو آہستہ آہستہ گروہ کی شکل اختیار کر گئے۔ اب صورتِ حال کچھ اس طرح ہو گئی کہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہ بن گئے جن میں ایک گروہ جوحق کے راستے سے بھٹک گیا تھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم اور لعن طعن کرتا تھا جو اَن جانے میں ابن سبا یہودی کے ساتھ مل چکا تھا، جب کہ دوسرا گروہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے والا تھا، وہ کہتے تھے کہ صحابہ کرام کا احترام دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کرو کیونکہ وہ لوگ اللہ کے رسول کا ساتھ دینے والے اور اسلام کا ہراول دستہ ہیں ۔ ان گروہوں کا اختلاف سیاسی تھا نہ کہ مذہبی۔ ان کے عقائد اور طریقہ عبادات وغیرہ ایک جیسا ہی تھا۔ لیکن یہودیوں کی سازش اتنی مضبوط تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل السنہ اور اہل التشیع کے نام سے مستقل فقہی تقسیم عمل میں آگئی۔ جن کے عقاید اور عبادات میں بعد المشرقین ہے۔ یہ دونوں گروہ آج بھی موجود ہیں ۔ البتہ ان کے درمیان سب سے بنیادی فرق ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی محبت ہے۔
ان میں سے فتنہ پرور گروہ نے جھوٹے افسانوں کے ذریعے سے صحابہ کرام کے درمیان بغض و عناد کی روایات گھڑ لیں ۔ پھر اسی تقسیم سے دواور مکاتب فکر وجود میں آئے:
|