Maktaba Wahhabi

93 - 668
یعنی آپ خدا کی طرف سے جو دین لائے، وہ سراسر رحمت ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بابرکات میں یہ دین بلند نہ ہوتا تو دنیا میں قائم نہ رہتا اور یہ امر رحمۃ للعالمین کے خلاف تھا۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس لیے اس کو غالب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد بھی یہ دین دنیا میں قائم رہے اور رحمت کا باعث ٹھہرے۔ ((عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم خَطَبَ فَقَالَ: أَیَّمَا رَجُلٍ سَبْبْتُہُ فِيْ غَضَبِيْ أَوْ لَعَنْتُہُ فَإِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ آدَمَ أَغْضَبُ کَمَا یَغْضِبُوْنَ وَ إِنَّمَا بَعَثَنِيَ اللّٰہُ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ فَاجْعَلْھَا صَلاَۃً عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) (مسند أحمد، تفسیر ابن کثیر زیر آیت مذکورہ) [1] ’’یعنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ میں اپنے غضب کی حالت میں جس مرد کو کوئی لعنت یا ملامت کروں ، سوائے اس کے نہیں کہ میں ایک مرد آدم کی اولاد میں سے ہوں مجھ پر بھی غصے کی حالت دوسرے انسانوں کی طرح طاری ہوتی ہے، سوائے اس کے نہیں کہ اللہ نے مجھے عام جہان کی رحمت کے لیے بھیجا ہے، پس اللہ اس ملامت اور لعنت کو اس مرد کے لیے قیامت کے دن رحمت کر دے۔‘‘ یعنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے انسانوں کی طرح انسان تھے اور انسان پر طبعاً غصے کی حالت طاری ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بعض آدمیوں کے خلافِ شریعت کام کو دیکھ کو ملامت اور لعنت کرتے، جو فحش سے منزہ ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی لعنت اور ملامت کو اللہ سے دعا کر کے مومنوں کے لیے رحمت کرا دیا، جو ان پر قیامت کے روز ہو گی، نہ کافروں کے لیے، کیونکہ وہ اس روز رحمت سے محروم رہیں گے ۔ سبحان اللہ! یہ کیسی عجیب اور عظیم الشان فضیلت ہے کہ جن کی ملامت اور لعنت بھی قیامت کے دن مومنوں کے لیے رحمت بن جائے، ان کی رسالت بھی دنیا کے لیے یقینا رحمت عامہ ہو گی۔ ((عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الطَّاعُوْنِ، فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّہٗ عَذَابٌ یَبْعَثُہُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ، وَ اِنَّ اللّٰہَ جَعَلہٗ رَحْمَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ)) (رواہ البخاري) [2]
Flag Counter