Maktaba Wahhabi

649 - 668
پر غور وخوض کرنے کے بعد میرے دل میں خود بہ خود یہ خیال پیدا ہوا کہ جب خدا تعالیٰ ازلی رحیم ہے اور عادل بھی تو اُس نے مسیح سے پیشتر ایسی شریعت کو کیوں نازل کیا، جس کی پابندی سے انسان کو بجائے ایمان اور راست بازی کے یہ اُجرت ملی کہ اس نے نہایت مشقت سے عمل کیا، تاہم یہ مظلوم بیچارہ محض بے ایمان اور غیر راست باز ٹھہرا۔ یہ کیا انصاف ہے، جب کہ وہ رحیم اور عادل ہے، پس اس صورت میں رحم کا تقاضا تو بجائے خود رہا، تقاضاے عدل سے بھی خدا کا تعطل لازم آتا ہے۔ وھو محال۔ پس فطرتِ مذکورہ بالا کا مضمون عقلاً محال ہے۔ نیز اس قضیہ حملیہ کلیہ سالبہ کہ ’’کوئی شخص شریعت کے وسیلے سے خدا کے نزدیک راست باز نہیں ٹھہرتا۔‘‘ کی نقیض بھی انجیل میں موجود ہے، جو قضیہ حملیہ موجبہ جزئیہ ہے۔ چنانچہ حضرت زکریا اور ان کی بیوی کے متعلق مرقوم ہے: ’’وہ دونوں خدا کے سارے حکموں اور قانونوں پر راست باز اور بے عیب چلنے والے تھے۔‘‘ (لوقا: باب۱، فقرہ ۹) یہ حوالہ اس امر پر صریح دال ہے کہ شریعت پر عمل کرنے سے انسان ایمان دار اور گناہ سے پاک ہوتا ہے، جیسا کہ زکریا اور ان کی زوجہ محترمہ تھے، پس نتیجہ ظاہر ہے کہ شریعت انسان کو گناہ سے پاک بنا کر نجات دلاتی ہے، پھر دیکھو کہ حضرت مسیح بھی شریعت کی اتباع کی نسبت نہایت تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلوائے گا، لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا۔‘‘ (متی: باب ۵، فقرہ ۱۹، ۲۰) اگر شریعت قاصر از نجات ہوتی تو حضرت مسیح اس کے عمل پر خدا کی بادشاہت میں ، یعنی نجات میں داخل ہوتا، لہٰذا پولوس کی تعلیم مسیح کے خلاف ہے کہ شریعت پر عمل کرنے سے انسان بے ایمان اور لعنتی بن جاتا ہے۔ پس وہ دعویٰ، جو سابق میں گزر چکا ہے، باطل ہے۔ نیز آیاتِ مذکورہ سے یہ صراحتاً ثابت ہوا کہ مدارِ نجات کفارہ پر ہر گز نہیں ، بلکہ شریعت پر ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اعمالِ حسنہ کو نجات سے کچھ تعلق نہیں ، غلط ہے، کیونکہ انجیل اس کے خلاف ہے۔ مندرجہ ذیل مقامات بغور
Flag Counter