Maktaba Wahhabi

576 - 668
جائیں تو بھی مسیحی دین کی کسی تعلیم کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ جناب اگر کسی الہامی کتاب میں سے ۳۷[1] آیات نکال دی جائیں یا داخل کر دی جائیں تو اس کتاب کی پوزیشن ہی کیا باقی رہ جاتی ہے اور اس کتاب میں جو تعلیم ہو گی، پھر اس کی پوزیشن کیا ہو گی اور کتاب میں آیات کا داخل اور خارج نقصان نہیں ہے تو پھر ہم نہیں جانتے کہ نقصان کس جانور کا نام ہے؟ پھر اگر آپ لوگ اس نقصان کو نقصان نہیں سمجھتے تو اب بھی اس نئی انجیل سے چالیس یا پچاس آیات کے قریب خارج کر دیجیے یا پھر اپنے مطلب کی کسی اور کتاب کی عبارت کو داخل کر دکھائیے۔ در اصل ان صاحبان کی اس طرح کی گفتگو سے صاف صاف عجز نظر آ رہا ہے۔ اب ہم یہاں صرف ایک ہی مثال پیش کریں گے جس سے صاحبِ عقل حضرات کو معلوم ہو جائے گا کہ متعدد آیات تو کجا اگر صرف ایک فقرہ کا فرق بھی ہو جائے تو معنی میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے اور تعلیم کا حلیہ بگڑ جاتاہے۔ چنانچہ عربی انجیل مطبوعہ ۱۸۷۲ئ؁ اور اسی سن کی فارسی کی انجیل میں کرنتھیوں کے نام پولوس کا پہلا خط ہے۔ اس کے باب (۷) اور آیت (۳۶۔ ۳۷) میں صاف صاف الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی اپنی کنواری لڑکی کے حق میں جوانی میں جوانی سے ڈھل جانا نامناسب جانے اور یہی ضرور سمجھے تو جو چاہے کرے کوئی گناہ نہیں کرتا۔ وے بیاہ کریں ۔ یہ فقرہ کہ جو چاہے کرے کوئی گناہ نہیں ، یہ ایک ایسا فقرہ تھا جس سے ان حضرات کی گندی تعلیم نکھر کر سامنے آ جاتی تھی، کیونکہ اس میں عام اجازت ہے کہ جو چاہے کرے کوئی گناہ نہیں ، بیاہ کریں چاہے وہ خود ہی لڑکی سے نکاح کرے اور اس کو اپنی بیوی بنا کر اپنے پاس رکھے۔ پھر جب خیال آیا کہ شاید کوئی غیرت مند اور سلیم الفطرت انسان اس تعلیم کو ماننے سے انکار کر دے تو اس کی تسلی اس طرح کر دی کہ کوئی گناہ نہیں کہ بیاہ کریں ۔ کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا کہ باپ اپنی بیٹی کی شادی کسی دوسرے شخص کے ساتھ کر دے تو اس بات کو کوئی بھی آدمی گناہ نہیں سمجھتا، تو پھر گناہ کی نفی کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
Flag Counter