Maktaba Wahhabi

451 - 668
سکتا، مگر جب خدا مجھ کو اپنی رحمت میں چھپا لے گا۔ پس مضبوط رہو اور صبح وشام ہر وقت عمل میں کوشش کرو۔ (شیر، ص :۱۸) نجات : پادری صاحب نے اس حدیث کو سند بنا کر اسلامی نجات کی نفی میں پر زور دلیل پکڑی ہے، لیکن اس کا مطلب سمجھنے میں بحر اغالیط میں غوطہ کھایا۔ نفسِ حدیث ہی میں اس کا جواب موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے وہم کا ازالہ کرتے ہوئے ہر وقت شرعی اعمال میں زور دیا اور حکم دیا کہ ہر وقت اعمال میں کوشش کرتے رہو، کیونکہ شرعی اعمال خدا کی رحمت اور نجات حاصل کرنے کا اعلیٰ ترین سبب ہیں ، جیسا کہ ارشادِ باری ہے: ﴿جَنّٰتُ الْمَاْوٰی نُزُلًام بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [السجدۃ: ۱۹] ’’پس مومنوں کے لیے جنت میں ٹھکانا ہو گا مہمانی کے طور پر بہ سبب اس چیز کے کہ جو عمل کرتے تھے۔‘‘ آیت میں اعمالِ صالحہ جنت حاصل کرنے کا سبب ہیں ﴿بِمَا﴾ میں جو ’’ب‘‘ آئی ہے، سبب کے لیے آئی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ شرعی اعمال بذات خود کسی کو نجات نہیں دلا سکتے۔ نجات خدا کی رحمت سے ہے، جس کے عوض میں اعمالِ صالحہ نہیں دیے جا سکتے، کیونکہ نجات کی بے حد قیمت ہے۔ اعمال شرعی نجات کا فاعل بھی نہیں ہیں اور اس کی قیمت بھی نہیں ہو سکتے۔ ہم اس کو مثال سے واضح کرنا چاہتے ہیں ، مثلاً: اولادِ صالحہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے، لیکن بغیر نکاح کرنے کے حلال اولاد حاصل نہیں ہو سکتی۔ پس جس طرح حلال اولاد حاصل کرنے کا نکاح اعلی ترین سبب ہے، ٹھیک اسی طرح شرعی اعمال نجات حاصل کرنے کا سبب ہیں ، اس کا فاعل نہیں ہیں ۔ پادری صاحب اپنی نجات کا دارو مدار مسیح کے کفارے پر رکھتے ہیں ، حالانکہ انجیل میں بھی اعمال پرزور دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح فرماتے ہیں : ’’اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے۔‘‘ (یوحنا باب ۱۵ درس ۱۰) اور مقدس پولوس اعمال کی جابجا تردید کرتے ہوئے مسیح کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ حضرت مسیح تورات کے سب حکموں پر عمل میں زور دیتے ہیں ، جیسا کہ سابقاً گزر چکا ہے۔ (متی باب ۵، درس ۱۹، تا ۲۰) اب مقدس پولوس کی سنو!
Flag Counter