Maktaba Wahhabi

334 - 668
میں نطفہ ڈال کر حمل قائم کر کے اولاد پیدا کرتا ہے، جسے وہ اپنے سسر کو دے دیتا ہے۔ وید منتر کے جس لفظ کا ترجمہ باپ کیا جاتا ہے، انسانوں کے متعلق اسی لفظ کا ترجمہ داماد کر دیا جاتا ہے، کیا یہی ایمان داری اور صداقت ہے کہ جب سورج اور شفق بے جان فرضی اور خیالی استعارہ بنایا جاتا ہے تب تو پِتا کا ترجمہ باپ کیا جائے اور جب انسانوں پر منتر کا اطلاق نرکت وغیرہ سے صحیح ثابت ہو تو جھٹ داماد کا ترجمہ کر دیا جائے۔ حالانکہ بے برادر بیٹی کا بیاہ جب وید سے حرام ثابت کیا گیا تو اس کا خاوند کیسے ہو سکتا ہے؟ جو سسر کا داماد کہلائے۔ آریوں کے مورث اولیں برہما میں بھی اس فعل کا ارتکاب اپنی سگی بیٹی میں کیا تھا۔ جس کا ذکر شت پتھ براہمن ۱.۷.۴ اتا چار نیزاتیرے براہمن ۳.۳۳ تانڈیہ مہا براہمن ۸.۲.۱۰ نیز رامائن مہا بھارت ادیوگ پر ب ادھیائے ۱۱۷ میں بھی ایک مثال کے دوران میں لکھا ہے۔ سرسوتی سے برہما نے رمن جماع کیا تھا اور بھوشیہ پران پر ب میں بھی لکھا ہے: ترجمہ: جو عورت عقلمند ہو اسے اچھا خاوند کر لینا چاہیے، خواہ اس کا بیٹا باپ اور بھائی کوئی بھی کیوں نہ ہو، اس کا خاوند بن سکتا ہے۔ جس طرح اپنی سگی بیٹی کو برہما نے اور سگی ماں کو وشنو اور بھین (بہن) کو شِو شنبھو نے پراپت کر کے فضیلت حاصل کی (وید ارتھ پرکاش ب ۳)۔ یہ ایسی حیا سوز اور شرم ناک تعلیم ہے جس کے لکھنے، بلکہ سننے کو بھی جی نہیں چاہتا، ایسے منتروں کے مصنف ملہم اور رشی کہلانے کے حق دار نہیں ہیں اور نہ یہ کتابیں ایشوری گیان خدا کا کلام ہو سکتی ہیں ۔ اگر ویدوں میں باپ اور بیٹی کی مجامعت کا جواز نہ ہوتا تو بڑے رشی برہما جی اس فعل کا ارتکاب نہ کرتے۔ پس اگر کوئی شخص رنگیلے مصنف کی طرح یہ کہہ دے کہ برہما جی نے سگی بیٹی سے مجامعت کی۔ بیٹی کی بیٹی اور بیوی کی بیوی۔ اسی طرح بشنو جی نے سگی ماں سے صحبت کی۔ ماں کی ماں اور بیوی کی بیوی۔ اور شو شنبھو نے بھین سے صحبت کی، بھین کی بھین اور بیوی کی بیوی۔ حالانکہ یہ غلط ہے کہ بیوی تو اس صورت میں بن سکتی ہے کہ اس سے نکاح کیا جائے۔ بلا نکاح تو نکاح سے بھی بدترین جرم ہو گیا۔ یہ ہم نے سماجی متروں پر اس لیے الزام قائم کیا ہے کہ آیندہ وہ اسلام پر زبان درازی کرنے کے لیے منہ نہ کھولا کریں ۔
Flag Counter