Maktaba Wahhabi

321 - 668
جلتی ہوئی گیسوں کا گولہ ہے جس میں بکری اور گھوڑے قائم نہیں رہ سکتے اور انسانوں کی حمد اور التجاؤں کو سن بھی نہیں سکتا۔ مزید برآں سوامی جی نے ستھیارتھ میں ایک قاعدہ کلیہ بتلایا ہے کہ جہاں کہیں حمد اور پرستش پائی جائے، وہاں ایشور خدا ہی مراد سمجھنی چاہیے۔ غرضیکہ سوامی جی کے ترجمے سے آدتیہ پر میشور کا ہی نام ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے اس وید منتر میں پر میشور کو ہی بھین کا یار اور ماں کا خصم کہا گیا ہے۔ ان وید منتروں سے یہ سبق ملتا ہے کہ بھین (بہن) اور ماں کے ساتھ صحبت جائز ہے۔ جس بات کی مثال خود ویدک ایشور قائم کرے، وہ کیوں کر ناجائز کہی جا سکتی ہے۔ دیکھو کہ چار داک مت کے بانی مہاتما برہسپتی بدھ بھگوان کے اقوال کی تصدیق ہوتی ہے کہ تینوں ویدوں کے مصنف کچھ رنگیلی طبیعتوں والے انسان تھے۔ (وید ارتھ ب ۴) اس کے بعد مصنف نے اپنے ترجمے کی تصدیق کے لیے بہت سے معتبر تراجم نقل کیے ہیں ۔ اس وید منتر میں خدا تعالیٰ کو اپنی بھین (بہن) کا یار اور ماں کا خصم بتایا گیا ہے۔ اگر یہ گالیاں ہیں تو نہایت کذب اور بہتان کا طوفان ہے، ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا کی ماں اور بھین (بہن) بھی ہیں ۔ جن سے اس کا ناجائز تعلق ہے۔ شاید ماں بھین (بہن) کے علاوہ اسے کوئی عورت نہیں ملتی ہو گی۔ اگر خدا کی ماں ہے، تو اس کے باپ کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ پنڈت جی! جب آپ کی کتاب میں ایسے ناپاک منتر مذکور ہیں تو پھر آپ اس کو کیسے الہامی تسلیم کر سکتے ہیں اور ایسے رشی جن کو آپ کے بڑے محققین نے رنگیلی طبیعتوں والے کہہ دیا ہے، تو کیا وہ درجہء رسالت تک پہنچ سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔ جب آپ پر ایسے سنگین اعتراضات وارد ہوتے ہیں ، جن کا اٹھانا آپ کے لیے نہایت دشوار ہے اور رشیوں کی پوزیشن کو صاف کرنا آپ کے لیے ایک مصیبت کا طوفان ہے، تو آپ اسلام کی پاک تعلیم پر طعن کرنے سے باز کیوں نہیں آتے؟!
Flag Counter