Maktaba Wahhabi

313 - 668
ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت کرو۔ (مشکاۃ کتاب النکاح باب: النظر إلی المخطوبۃ و بیان العورات) [1] چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے خدا کی طرف سے معلم تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور فعل سے امت کو تعلیم دے دی کہ تم بھی ایسا کیا کرو۔ ناظرین! کیسی پاکیزہ تعلیم دی ہے۔ باقی رہا پنڈت جی کا یہ کہنا کہ عورت کا کیا قصور تھا کہ اس کو شیطان کہا گیا۔ ان کو کیا معلوم کہ قصور کس درخت کا نام ہے؟ اس کا قصور یہ تھا کہ بے پردہ اور بے نقاب آریہ کی عورتوں کی طرح بازار میں پھر رہی تھی۔ ایسی عورتیں جو زینت لگا کر ننگے منہ کوچوں اور بازاروں میں گشت کریں اور مردوں کو اپنی زینت اور بے نقابی کی و جہ سے اپنی طرف مائل کریں ، یہ ان کا قصور ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) کو شیطان سے تشبیہ دی۔ جس طرح شیطان انسان کے دل میں برائی کا وسوسہ ڈال دیتا ہے، اسی طرح ایسی عورت بھی مردوں کے دل میں بدکاری کا وسوسہ ڈال دیتی ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ عورت کون تھی؟ شاید مسلمان ہو، جس کو پردے کا مسئلہ معلوم نہ تھا۔ غالب احتمال یہ ہے کہ وہ عورت یہودیہ ہو، کیونکہ مدینے میں یہودیوں کی آبادی بکثرت تھی۔ ان کی عورتیں بھی سماجی عورتوں کی طرح بے نقاب زینت لگا کر مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ۔ پنڈت جی! آپ کے مذہب میں تو عورتوں کا پردہ ہی نہیں ، بلکہ آپ لوگ تو اسلامی پردے پر طعن کیا کرتے ہیں ۔ پس جس صورت میں آپ کے رشیوں نے عورتوں کو ننگے منہ بے نقاب پھرنے کی اجازت دے دی، تو وہ بیگانی عورتیں بے گانے مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ، تو مردوں کا دل تغیر میں آجاتا ہے، جس کی و جہ سے جذباتِ شہوانی کو سخت تحریک ہوتی ہے، جس کا نتیجہ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ جب آپ کے مذہب کی ایسی حیا سوز تعلیم ہے، تو آپ اسلامی تعلیم پر طعن کرنے سے کیوں کر باز نہیں آتے۔ ذرا ویدک مت اور اپنے رشیوں کی تعلیم کا نمونہ بھی دیکھ لیجیے گا۔ ذرا غو سے سنیں ! وید ارتھ کے چوتھے باب میں مندرجہ ذیل منتر منقول ہے۔ جس کے بہت سے تراجم بالعموم اور خاص طور پر سوامی دیانند سرسوتی کا ترجمہ بھی نقل کیا گیا ہے تا کہ ترجمے کی صحت میں شبہہ نہ رہے۔ اگرچہ یہ سب تراجم مضمون کے لحاظ سے باہم مطابق ہیں ، تا ہم ان سے ایک ہی
Flag Counter