Maktaba Wahhabi

242 - 668
ہوئے۔ ۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک جرمن اور برطانیہ، جو عیسائی مذہب کو ماننے والے ہیں ، ان کے درمیان شدت سے جنگ ہوتی رہی۔ برطانیہ کی طرف سے ترکی پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ تمام دنیا پر واضح ہیں ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ مسیحی دین پر عمل ہے یا اسلامی تعلیم پر؟ بے چارے کیا کریں ؟ ان کو معلوم تھا کہ یہ دن اپنے مذہب پر عمل کرنے کے نہیں ہیں ۔ اگر عمل کیا تو حکومت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ اسلام نے اگر دفعِ شر اور فساد کے سدباب کی خاطر شریر اور فسادی کے مقابلے کی اجازت دے دی تو وہ فوراً موردِ طعن بنا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر زبان درازی اور بد زبانی کرنے میں ذرا بھی شرم نہیں کی گئی، لیکن آخر مجبوراً ان کو اسلام ہی پر عمل کرنا پڑا، کیوں کہ اس کے بغیر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ اب ہم ناظرین کو بائبل سے وہ مقامات دکھاتے ہیں ، جن میں خدا تعالیٰ نے نبیوں کو جنگ کرنے کا حکم دیا، جو بقول پادری صاحب کے ظلم وفساد، خود غرضی اور بد خواہی، حرصِ دنیاوی، قتل کرنے اور دشمن سے بدلہ لینے وغیرہ سب کا بانی وہی ہے، اس میں انبیا علیہم السلام کا کوئی قصور نہیں ۔ اگر ہے تو بقول معترض کے خدا کا ہے،اس لیے کہ اس نے لڑائی کا حکم دیا۔ دیکھو: کتاب استثنا باب ۲ درس ۲۴۔ ۲۵ میں خدا تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرماتا ہے: ’’اور جنگ میں اس کا مقابلہ کر۔ آج کے دن سے میں تیرا خوف اور رعب ان قوموں کے دل میں ڈالنا شروع کروں گا۔‘‘ پس حضرت موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی تعمیل کو جس طرح بجا لائے، باب مذکور درس ۳۳۔ ۳۴ میں فرماتے ہیں : ’’خدا تعالیٰ نے اسے ہمارے حوالے کیا اور ہم نے اس کے بیٹوں اور اس کی سب قوم کو ہلاک کر دیا اور ہم نے اسی وقت اس کے سارے شہروں کو لے لیا۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کو ہر ایک شہر میں رجم کیا اور کسی کو باقی نہ چھوڑا۔‘‘ بقول پادری کے موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے صریح ظلم اور بدخواہی، خود غرضی اور خونریزی کا حکم دیا۔ دشمنوں کو مارنے اور ان کے شہر کو قبضہ کرنے پر بس نہیں کی، بلکہ بے قصور عورتوں اور معصوم بچوں کو اور ان کے علاوہ سب خلقت کو ناحق ظلم سے مار ڈالا اور اس ظلم پر خدا کو بھی رحم نہ آیا۔ پھر اسی کتاب کے باب ۷ درس ۲ میں اسی نبی کو خدا فرماتا ہے: ’’خداوند تیرا خدا ان کو تیرے حوالے کرے تو تو انہیں ماریو اور رجم کی جیو۔ نہ تو ان سے کوئی عہد کریو اور نہ ان پر رحم کریو۔‘‘
Flag Counter